اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین علامہ ڈاکٹر راغب نعیمی نے جمعے کو وی پی این کے استعمال کو ’غیر شرعی‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کو شرعی لحاظ سے اختیار ہے کہ وہ برائی اور برائی تک پہنچانے والے تمام اقدامات کا انسداد کرے۔
چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل کے دفتر سے جاری ہونے والی پریس ریلیز میں کہا گیا کہ ’انٹرنیٹ یا کسی سافٹ ویئر (وی پی این وغیرہ) کا استعمال، جس سے غیر اخلاقی یا غیر قانونی مواد یا بلاک شدہ ویب سائٹس تک رسائی حاصل کی جائے، شرعی لحاظ سے ناجائز ہے۔‘
مزید کہا گیا کہ ’حکومت کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ایسے ذرائع اور ٹیکنالوجیز کے استعمال پر موثر پابندی عائد کی جائے، جو معاشرتی اقدار اور قانون کی پاسداری کو متاثر کرتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسلامی نظریاتی کونسل کے مطابق: ’غیر اخلاقی اور توہین آمیز مواد تک رسائی کو روکنے یا محدود کرنے کے لیے اقدامات کرنا، جس میں وی پی این کی بندش بھی شامل ہے، شریعت سے ہم آہنگ ہے اور کونسل کی پیش کردہ سفارشات و تجاویز پر عملدرآمد ہے، لہذا ان اقدامات کی ہم تائید و تحسین کرتے ہیں۔‘
بیان میں بتایا گیا کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے 30 مئی 2023 کو ایک مشاورتی اجلاس میں سوشل میڈیا کے غلط استعمال اور اس پر موجود توہین آمیز اور غیر اخلاقی مواد کے انسداد کے لیے اقدامات کرنے کی سفارشات پیش کی تھیں۔ اس میں یہ سفارش بھی کی گئی کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ سوشل میڈیا ویب سائٹس کی رجسٹریشن کا عمل جلد از جلد شروع کریں اور تمام وی پی این کو بند کرنے کے لیے بلا تاخیر اقدامات کریں۔
علامہ ڈاکٹر راغب نعیمی کے مطابق: ’وی پی این ایک تکینیکی ذریعہ ہے، جس کے ذریعے صارفین اپنی اصل شناخت اور مقام کو مخفی رکھ سکتے ہیں۔ اگرچہ یہ ٹیکنالوجی عام طور پر سکیورٹی اور پرائیویسی کے مقاصد کے لیے استعمال ہوتی ہے، لیکن اکثر دیکھا گیا ہے کہ وی پی این کا استعمال ایسی ویب سائٹس تک رسائی حاصل کرنے کے لیے بھی کیا جاتا ہے، جن کو شرعاً یا قانوناً ممنوعہ ویب سائٹس کہا جا سکتا ہے یا جو حکومت کی طرف سے بلاک ہوں۔ ان میں اخلاق بافتہ یا پورن ویب سائٹس اور معاشرے میں جھوٹ یا غلط معلومات پھیلا کر انتشار پیدا کرنے والی ویب سائٹس شامل ہیں۔‘
مزید کہا گیا کہ ’وی پی این کے ذریعے آن لائن چوری بھی کی جاتی ہے اور چور کا سراغ نہیں ملتا۔ شریعت کے مطابق کسی بھی عمل کا جواز یا عدم جواز کا دارومدار اس کے مقصد اور طریقہ استعمال پر ہے، چونکہ وی پی این کو بلاک شدہ یا غیر قانونی مواد تک رسائی کے لیے استعمال کیا جانا اسلامی اور معاشرتی قانون کی خلاف ورزی ہے، اس لیے اس کا استعمال شرعاً جائز نہیں ہوگا۔ یہ ’اعانت علی المعصیہ‘ (گناہ پر معاونت) کے زمرے میں آتا ہے، جو کہ شریعت میں ممنوع ہے۔‘
حکومت کا موقف ہے کہ ملک میں غیر رجسٹرڈ وی پی این سے ’دہشت گرد بھر پور فائدہ‘ اٹھا رہے ہیں جبکہ روزانہ کی بنیاد پر فحش مواد تک رسائی کی کروڑوں کوششیں بھی کی جاتی ہیں۔
اسی حوالے سے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے اپنے ایک اعلامیے میں کہا تھا کہ ’صارفین وی پی این کے ذریعے پابندیوں کو نظرانداز کرتے ہیں اور فحش مواد تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔‘
ادارے نے یہ بھی کہا کہ اس مسئلے کو روکنے کے لیے وہ مکمل طور پر پرعزم ہے اور اس مواد کو مؤثر طریقے سے بلاک کرنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کر رہا ہے۔
یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب گذشتہ کچھ روز سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس تک رسائی عام صارف کے لیے تقریباً ناممکن ہو گئی ہے، جس کی وجہ پی ٹی اے کی جانب سے وی پی اینز کے خلاف تازہ کارروائی قرار دی جا رہی ہے۔