’تین عورتیں تین کہانیاں‘ 1975 سے لے کر دور جدید یعنی 2023 تک بلا ناغہ ’اخبار جہاں‘ میں شائع ہو رہی ہیں، جس کی تحریر 60 سال سے سعیدہ افضل کرتی آرہی ہیں۔
اگر یہ کہا جائے کہ ایک وقت تھا کہ سعیدہ افضل کی تحریر پڑھنے کے لیے ہی ’اخبار جہاں‘ خریدا جاتا تھا تو یہ کہنا بالکل غلط نہ ہوگا، لیکن یہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ خواتین کے حقوق اور مسائل پر روشنی ڈالنے والی سعیدہ افضل آخر ہیں کون؟
سعیدہ افضل کی عمر 80 برس ہو چکی ہے لیکن آج بھی ان کا قلم اتنی ہی روانی سے دوڑتا ہے، جتنا اب سے 60 سال پہلے۔
سادہ طبیعت اور دھیمے مگر صاف لہجے والی سعیدہ افضل سے انڈپینڈنٹ اردو نے حال ہی میں ملاقات کی اور ان سے ان کے قلمی سفر کے بارے میں جاننا چاہا۔
تین عورتیں تین کہانیاں‘ کے سفر کے آغاز کے حوالے سے سوال کے جواب میں سعیدہ افضل نے بتایا کہ یہ آئیڈیا ان کا اور ان کی دوست کا تھا اور ابتدائی تحریر بھی ان کی دوست نے ہی لکھی تھی، تاہم بعدازاں یہ ذمہ داری انہیں سونپ دی گئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بقول سعیدہ: ’میری دوست کو اس وقت ملازمت کی ضرورت تھی۔ میں نے اسے اپنے ساتھ ’اخبار جہاں‘ میں متعارف کروایا۔ ہم دونوں کا آئیڈیا تھا کہ عورتوں پر کہانیاں لکھی جانی چاہییں تو ہم نے سوچا کہ ’چار عورتیں چار کہانیاں‘ کے عنوان سے کچھ لکھا جائے۔ اپنے ایڈیٹر کو ہم نے تجویز دی تو انہوں نے کہا کہ ’تین عورتیں تین کہانیاں‘ عنوان ہونا چاہیے۔ ابتدا میں اس کی تحریر میری دوست نے کی، 1968سے لے کر 1974 تک، اس کے بعد وہ کسی ڈائجسٹ کے ساتھ کام کرنے لگیں اور پھر 1975 سے اسے تحریر کرنےکا فریضہ مجھے سونپ دیا گیا۔ تب سے اب تک 60 برس بیت گئے، میرے قلم سے ہزاروں کی تعداد میں کہانیاں رقم ہو چکی ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ یہ کام آسان نہیں تھا۔ ’سچائی کو پہلے تلاش کرنا اور پھر اس کی بنیاد پر کہانی کو تخلیق کرنا۔ میں نے ماضی کے سچے واقعات قلم بند کیے جو عدالتی ریکارڈ پر موجود ہیں۔ وہ کیس جن پر فیصلے ہو چکے ہیں۔ یہ عورتوں پر ظلم کی وہ دستانیں ہیں جن کی چیخیں سن کر آج بھی گویا پہاڑ لرز جاتے ہیں۔‘
سعیدہ افضل نے بتایا کہ لکھنے کا شوق انہیں بچپن سے ہی تھا۔ ’قلم سے ایک الگ سی محبت ہے تو میں نے قلم سے رشتہ ایسا جوڑا کہ ابھی تک وفا نبھا رہی ہوں۔ کیونکہ میں یہ سمجھتی ہوں کہ قلم ایسا ہتھیار ہے جس سے معاشرے کو بدلا جا سکتا ہے، نا انصافیوں اور غلط سسٹم کے خلاف آواز اٹھائی جا سکتی ہے، تحریر کی طاقت سے ذہنوں کو گرفت میں لے کر لوگوں کی سوچ کے دھارے درست سمت میں موڑے جا سکتے ہیں۔کہانیوں کے قالب اس کے لیے بہترین ذریعہ ہیں کیونکہ کہانیاں لوگ شوق سے پڑھتے ہیں۔‘
’تین عورتیں، تین کہانیاں‘ کا عنوان کیوں چنا گیا؟ اس سوال کے جواب میں سعیدہ افضل نے بتایا کہ ’عام عورت کی زندگی بے بسی اور تکلیفوں سے بھری ہوتی تھی، خاص طور پر دیہی خواتین۔ یہ کہانیاں لکھنےکا مقصد یہ بھی تھا کہ اس وقت خواتین کی کوئی آواز نہیں تھی، ہماری آواز ایوانوں تک نہیں جاتی تھی۔ اس مظلوم طبقے کی آواز کو بلند کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم کی ضرورت تھی، تب ہی اس صفحے کی ضرورت ہم نے محسوس کی اور میں نے ان کہانیوں کے لیے بہت جہاد کیا۔‘
بقول سعیدہ افضل: ’کافی عرصے تک میں دیہات میں رہی، دارالامان جاتی رہی، جیلوں میں گئی۔ ہر عورت میری جھولی میں اپنے راز ڈال دیا کرتی تھی۔ یہ حقیقت پر مبنی کہانیاں ہوتی ہیں، زمین سے جڑی ہوئی کہانیاں۔ میں ان کی زبانی تحریر کر تی تھی جسے پاکستان کے کونے کونے میں پڑھا جاتا تھا۔ ان کہانیوں کا اثر یوں ہونے لگا کہ قوانین پر عمل درآمد بھی ہوا۔‘
یہ کہانیاں کس طرح آپ تک پہنچتی تھیں؟ اس سوال پر سعیدہ افضل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’شروع میں ہم کیپشن لگاتے تھے کہ آپ کی کہانی صیغہ راز رکھیں گے، آپ اپنی کہانی ہمیں بذریعہ خطوط لکھ کر بھیجیں۔ شروع میں بورے بھر بھر کے خطوط موصول ہوتے تھے اور اس میں سے ہم کہانیاں چنتے تھے کیونکہ خط بھیجنے والی خواتین ادیب نہیں ہوتی تھی۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ہمیں چار لائنوں کے بھی خط آتے تھے۔ ان سطور پر آنسو تو گرے ہوتے تھے لیکن انہیں اپنی کہانی بیان کرنے کا صحیح انداز معلوم نہیں ہوتا تھا۔ ان خطوط کو پڑھ کر کہانی بنانے اور تخلیق کا عمل ہمارا ہوتا تھا۔ مواد ہم خطوط سے لیتے تھے، معاشرے سے لیتے تھے۔ دوسرا ذریعہ خواتین سے رو بہ رو مل کر ان سے مصدقہ حاصل کرتے تھے۔‘
میری کہانیوں پر ڈرامے بھی بنے لیکن کسی نے کریڈٹ نہیں دیا تو میں نے سوچا کوئی بات نہیں ہمارا پیغام عام ہوا، ہماری کہانی کا سرقہ ہوا لیکن کوئی گلہ نہیں۔
بقول سعیدہ: ’تین عورتیں تین کہانیاں‘ کے لیے تین الگ الگ موضوع ہوتے تھے۔ محبت میں ناکامی کی کہانیاں ہوتی تھیں، جو خاص عمر کا طبقہ بھیجتا تھا۔ عورت پر ظلم کی کہانی ہوتی تھی اور کوئی ایسی کہانی جس میں معاشرے کی عکاسی ہوتی تھی۔‘
اس سوال کے جواب میں کہ سوشل میڈیا کے اس دور میں کیا اب بھی انہیں خطوط آتے ہیں اور ان کی تحاریر پڑھی جاتی ہیں؟ سعیدہ افضل نے بتایا: ’ماضی میں لوگ دیوانہ وار ان کہانیوں کو پڑھتے تھے لیکن اب پڑھنے کا رجحان کم ہو گیا ہے۔ لوگ الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا سے قریب ہو گئے ہیں، لیکن اب بھی کچھ لوگ ہیں جو مجھے ای میل کرتے ہیں۔ دور جدید کے ساتھ اب ہماری کہانیاں سوشل سائٹ پر موجود ہوتی ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا: ’میرے مکالموں پر ڈرامے بھی بنے لیکن کسی نے کریڈٹ نہیں دیا تو میں نے سوچا کوئی بات نہیں۔ ہمارا پیغام عام ہوا، ہماری کہانی کا سرقہ ہوا لیکن کوئی گلہ نہیں۔
’مجھے لگتا ہے کہ اللہ نے مجھے اس نیک کام کے لیے چنا کہ میں عورتوں کے حقوق پر آواز اٹھاؤں۔ مجھے یقین ہو گیا تھا کہ اس سے بہت فائدہ ہوا ہے تو پھر میں نے سوچا کہ میں کہیں اور کسی میڈیم کے ساتھ کام نہیں کروں گی اور اب تک ’تین عورتیں تین کہانیاں‘ تحریر کر رہی ہوں، جسے لکھنے کے لیے میں اب بھی قلم اور کاغذ کا استعمال کرتی ہوں۔‘
سعیدہ نے بتایا کہ ان کے اس سلسلے میں کبھی تعطل نہیں آیا۔ ’میں بیمار بھی ہوئی، آپریشن بھی ہوئے، ہسپتال کے بستر پر لیٹ کر بھی میں نے کہانیاں لکھی ہیں۔ میرے بچے ہوئے، ایک ہاتھ سے میں نے پالنا جھلایا اور ایک ہاتھ سے کہانی لکھی۔ یہ ریکارڈ بات ہے کہ کبھی ناغہ نہیں ہوا۔ ہر ہفتے یہ کہانیاں شائع ہوتی رہیں۔‘
سعیدہ افضل افسانے بھی لکھتی ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی ناولز پر مبنی کتابیں بھی شائع ہوئیں، جن میں ’جنگل کا پھول‘ اور ’جھوٹے سچے لوگ‘ شامل ہیں۔
شروع میں بورے بھر بھر کے خطوط موصول ہوتے تھے اور اس میں سے ہم کہانیاں چنتے تھے کیونکہ خط بھیجنے والی خواتین ادیب نہیں ہوتی تھیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’اطراف‘ کے نام سے ایک رسالہ نکالا جاتا ہے اور ہر ہفتے اس میں ان کی زندگی کی کہانی اقساط کی شکل میں آتی ہے۔
سعیدہ نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے انہیں کام کے صلے میں کوئی اعزاز وغیرہ نہیں ملا، تاہم ’ایک بار پنجاب کی طرف سے سماجی بہبود کے لیے خدمات کے اعتراف میں 2001 میں انہیں ایک ایوارڈ ملا تھا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ انہیں آٹھواں ’جناح ٹیلنٹ‘ ایوارڈ عمران خان نے بطور بہترین کالم نگار دیا تھا۔ اس کے علاوہ سٹی سکول ڈیرہ غازی خان نے اچیومنٹ ایوارڈ سے نوازا۔ اسی طرح ملکی ادبی اور سماجی تنظیموں کی طرف سے بہت سی اسناد و ایوارڈ ملے ہیں۔ ’ان کی فہرست طویل ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ حکومت کی طرف سے نہ سہی ملک کے عوام سے مجھے بہت پذیرائی ملی۔‘
زندگی سے کیا سیکھا؟ اس سوال کے جواب میں سعیدہ افضل نے بتایا: ’میں قناعت پسند انسان ہوں۔ زندگی سے بہت زیادہ توقعات نہیں رکھیں۔ دنیا میں اس قدر دکھی لوگ دیکھے ہیں کہ اپنے حال پر رب کا شکر ادا کرتی ہوں کہ اس نے مجھے تمام نعمتوں سے نوازا۔ (زندگی سے) یہی سیکھا کہ آپ کسی کے کام آ سکیں، یہی بڑی بات ہے۔‘