اسرائیل کی بحری تجارت کو دھچکا، ایلات بندرگاہ پر سرگرمیوں میں ’85 فیصد کمی‘

بحیرہ احمر میں آبنائے باب المندب میں حوثی ملیشیا کے حملوں کے بعد اب بڑی شپنگ کمپنیوں کو طویل راستہ اختیار کرنا پڑ رہا ہے اور خدشہ ہے کہ اسرائیل کی بڑی بندرہ گاہ ایلات پر تجارتی سرگرمیاں صفر ہو سکتی ہیں۔

غزہ پر جاری جارحیت سے اسرائیل کی معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے جس میں اب مزید اضافہ ہو رہا ہے کیوں کہ بحیرہ احمر میں یمن کے حوثی ملیشیا کی طرف سے حملوں کے بعد تجارتی بحری جہازوں کو طویل راستہ اختیار کرنا پڑا رہا ہے، جس سے تجارتی سرگرمیاں شدید متاثر ہوئی ہیں۔

‌بحیرہ احمر میں ایک بحری راستے آبنائے باب المندب میں حوثی ملیشیا نے حالیہ دنوں میں بڑی مال برداری کمپنیوں کے ان بحری جہازوں کو نشانہ بنایا جن کا تعلق اسرائیل سے تھا یا وہ اسرائیل سامان لے جا رہے تھے۔ ان حملوں کے بعد شپنگ کمپنیوں نے آمد و رفت کے اس اہم راستے کی بجائے متبادل راستہ اختیار کرنا شروع کر دیا ہے۔

حوثی ملیشیا کے ان حملوں کے بعد رواں ہفتے امریکہ نے بحیرہ احمر میں تجارت کے تحفظ کے لیے ایک کثیر القومی آپریشن کا آغاز کیا۔

جبکہ اسرائیل کے وزیر دفاع یوآو گیلنٹ نے رواں ہفتے ایک بیان میں کہا کہ اسرائیل حوثی ملیشیا کے حملوں کو برداشت نہیں کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ اگر ایلات بندرگاہ یا کسی اور مقام کو نشانہ بنایا گیا تو اس کا جواب دیا جائے گا۔

‌حوثی ملیشیا کا کہنا ہے اس کا ہدف صرف اسرائیلی جہاز یا اسرائیل کے سامان لے جانے والے بحری جہاز ہیں جبکہ ملیشیا کی طرف سے یہ بھی واضح کیا گیا کہ اگر امریکہ یا کسی اور نے یمن کو نشانہ بنایا تو ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھا جائے گا بلکہ جواب دیا جائے گا۔

ایلات بندرگاہ کے سی ای او گیڈون گولبر نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ باب المندب کے بغیر ’ہم نے (ایلات بندرگاہ) پر کل سرگرمیوں کا 85 فیصد کھو دیا ہے۔‘

گیڈون گولبر کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت ایلات بندرگاہ پر ’پوٹاش برآمد کرنے کے لیے بہت کم بحری جہاز موجود ہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ بھی مشرق بعید میں اپنی منزل کی جانب سفر نہیں کریں گے، اس لیے ان کی تعداد اور بھی کم ہو جائے گی۔‘

انہوں نے کہا کہ اگر یہی صورت حال برقرار رہی تو ایلات بندرگاہ پر بحری سرگرمیاں ’صفر‘ ہو جائیں گی۔ اس صورت حال میں روزگار کے ذرائع میں بھی کمی ہو گی۔

حوثی ملیشیا کا موقف

‌امریکہ کی جانب سے بحیرہ احمر میں تجارت کے تحفظ کے لیے کثیر القومی آپریشن کے آغاز سے متعلق حوثی ملیشیا کی تشکیل کردہ یمن کی سپریم پولیٹیکل کونسل نے جمعرات کو ایک بیان میں خبردار کیا کہ بحیرہ احمر میں تجارت کے تحفظ کی آڑ میں کثیرالملکی فورس بنانے کا امریکی اقدام بدنیتی پر مبنی ہے۔

کونسل کی طرف سے کہا گیا کہ آبنائے باب المندب میں یہ کارروائیاں اسرائیلی جارحیت کا جواب اور فلسطینی عوام کی حمایت میں ہیں۔

حوثی ملیشیا کی تشکیل کردہ سپریم پولیٹیکل کونسل نے اپنے بیان میں یہ الزام بھی عائد کیا کہ بحیرہ احمر میں امریکہ کے سکیورٹی اقدامات کا مقصد اسرائیل کی حفاظت کرنا اور بحیرہ احمر اور خلیج عدن کو فوجی علاقہ بنانا ہے۔

آبنائے باب المندب مصروف بحری گزرگاہ

تقریباً 100 کلومیٹر طویل اور 30 کلومیٹر چوڑی یہ آبی گزرگاہ یمن کے ساحلی شہر راس مینہیلی اور جبوتی میں راس سیان تک پھیلی ہوئی ہے، جس کا شمالی سرا بحیرہ احمر اور جنوبی سرا خلیج عدن میں کھلتا ہے۔

بحیرہ احمر، یورپ اور ایشیا کے درمیان ایک اہم آبی گزرگاہ کے طور پر کام کرنے کے ساتھ یہ آبنائے دنیا کے مصروف ترین بحری راستوں میں سے ایک ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بحر ہند سے آنے والے تیل کے ٹینکرز اور مال بردار بحری جہاز بحیرہ احمر اور پھر نہر سویز تک پہنچنے کے لیے اسی آبی گزرگاہ سے گزرتے ہیں، جہاں سے وہ یورپ اور امریکہ جانے کے لیے بحیرہ روم میں داخل ہوتے ہیں۔

بحری جہاز طویل سفر پر مجبور

واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی کے سینیئر فیلو نوم ریڈان نے اپنی تحریر میں لکھا ہے کہ اسرائیل سے منسلک کچھ جہازوں نے بظاہر اس بحری گزرگاہ سے اجتناب کرتے ہوئے افریقہ اور کیپ آف گڈ ہوپ کے گرد طویل راستہ اختیار کرنا شروع کر دیا ہے۔

واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فار نیئر ایسٹ کے تجزے کے مطابق اس طویل راستے سے جہازوں کو سست رفتاری، بڑھتے ہوئے سفری اخراجات اور تاخیر جیسے مسائل کا سامنا ہے۔

تجزیے میں کہا گیا کہ اب ایک بحری جہاز کو کیپ آف گڈ ہوپ کے ذریعے سپین کی بندرگاہ ملاگا تک پہنچنے کے لیے تقریباً 31 دن درکار ہوں گے جب کہ آبنائے باب المندب کے ذریعے یہ سفر 19 دن میں طے کرنا ممکن تھا۔

سفری اخراجات اور انشورنس فیس میں اضافہ

اقتصادی امور کے ماہر اور اسلام آباد میں قائم ادارہ برائے پائیدار ترقی ’ایس ڈی پی آئی‘ کے جوائنٹ ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر وقار احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ابتدائی اندازوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اگر کمرشل تجارتی جہاز طویل بحری راستے پر سفر کریں گے تو ان کے لاجسٹک اخراجات میں 20 سے 22 فیصد اضافہ ہو گا۔‘

انہوں نے کہا کہ انشورنس فیس بھی بڑھ رہی ہے جبکہ تجارت کے لیے وقت بھی زیادہ صرف ہو گا۔ ’تو یہ اچھا خاصا معاشی نقصان ہے، نہ صرف اسرائیل کے لیے بلکہ دیگر ممالک کے لیے بھی، جو بحری تجارت کے لیے یہ راستہ اپناتے ہیں۔‘

توانائی کے امور کے ماہر سید ناصر زیدی نے بتایا کہ جن ممالک یا علاقوں میں جنگ ہو رہی ہوتی ہے تو شپنگ کمپنیاں ’وار رسک پریمیم‘ بھی چارج کرتی ہیں، جس سے تجارتی سامان پر آنے والی لاگت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

بحری تجارتی سرگرمیوں پر نظر رکھنے والے پیلٹ فارم لویڈز لسٹ انٹیلی جنس کے انشورنس ایڈیٹر ڈیوڈ اوسلر کے مطابق بحیرہ احمر سے گزرنے والے جہازوں کے لیے انشورنس کی لاگت دوگنی ہو گئی ہے، جس سے جہازوں کے سفر میں لاکھوں ڈالر کا اضافہ ہو سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیلی جہاز کے مالکان کے لیے یہ قیمتیں اس سے بھی زیادہ بڑھ گئی ہیں، تقریباً 250 فیصد تک۔

ڈیوڈ اوسلر نے مزید کہا کہ جب صارفین اناج سے لے کر تیل تک ہر چیز ایمازون سے خریدتے ہیں تو ان پر 50 سے 100 ڈالر فی کنٹینر کے نام نہاد جنگی خطرے کا چارج لگایا جا رہا ہے۔

اقوام متحدہ کی ایک جائزہ رپورٹ کے مطابق اسرائیل کی اس جنگ کی وجہ سے نہ صرف اسرائیل کی معیشت کو بھاری نقصان پہنچا ہے بلکہ اس کے تین پڑوسی ممالک لبنان، مصر اور اردن کو بھی اس سال 10 ارب ڈالر کی معاشی قیمت چکانا پڑی ہے جب کہ اس جارحیت کے سبب ان تین ملکوں میں مزید دو لاکھ 30 ہزار افراد غربت کا شکار ہوئے۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا