پاکستانی پارلیمان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ کے اراکین نے منگل کو نگران وزیر اطلاعات و پارلیمانی امور مرتضیٰ سولنگی کی جانب سے موشن پکچرز ترمیمی بل 2023 پیش کرنے کی مخالفت کرتے ہوئے ایوان میں احتجاج کیا اور کہا کہ نگران حکومت کا کام قانون سازی کرنا نہیں ہے۔
چیئرمین صادق سنجرانی کی زیر صدارت جب اجلاس کا آغاز ہوا تو پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر زرقا سہروردی ایوان میں کھڑی ہو گئیں۔
انہوں نے پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن (پی آئی اے) کی نجکاری سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے پر کئی سوالات اٹھ رہے ہیں۔
’ہمارے جہاز باہر انڈونیشیا میں کھڑے ہیں، جرمنی کے حوالے سے بھی بات کی گئی کہ جہاز کھڑے ہیں جن پر ملین ڈالرز خرچ ہو رہے ہیں؟‘
ایوان میں مشیر برائے شہری ہوا بازی ایئر مارشل ریٹائرڈ فرحت حسین نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ لیے گئے جہازوں کا کرایہ ہوتا ہے۔
’یہ جہاز سال 2015 میں لیے گئے، دونوں جہاز دو کروڑ ڈالرز کے تھے، ہم نے دو کروڑ 60 لاکھ ڈالرز ادا کیے ہیں۔ ایک جہاز واپس آ گیا جبکہ دوسرا اگلے ماہ واپس آئے گا، دونوں جہاز اب پی آئی اے کا حصہ ہیں۔‘
پی آئی اے کی نجکاری پر فرحت حسین نے کہا 31 دسمبر 2023 تک پی آئی اے کی نجکاری کے حوالے سے فریم ورک دیا جائے گا۔
انہوں نے اس کے عمل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ رواں سال سات اگست 2023 تک پی آئی اے کو نجکاری کی فہرست میں شامل کیا گیا اور نجکاری کا عمل ایک ماہ بعد ستمبر میں نجکاری کمیشن کے سپرد کیا گیا۔ یہ عمل کابینہ کی منظوری سے ہو رہا ہے۔
مشیر برائے شہری ہوا بازی نے ادارے کے اثاثوں سے متعلق کہا کہ پی آئی اے کی ایئرلائن اور اثاثے ہیں، ان میں پہلے ایئرلائن کی نجکاری کی جائے گی اور اثاثوں کو الگ رکھا جائے گا اور نجکاری ٹینڈر کے ذریعے کی جائے گی۔
فرحت حسین نے مزید کہا کہ ایئرپورٹ کو ’مینیج‘ کرنا مشکل کام ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے انڈیا کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’دہلی ایئرپورٹ بھی آؤٹ سورس ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’سابقہ حکومت کی پالیسی کے تحت تین ایئرپورٹس کی آؤٹ سورسنگ ہونی ہے، اوپن بڈز کے ذریعے ایئرپورٹ کی آؤٹ سورسنگ کی جا رہی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے بعد نگران وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی اپنی نشست پر کھڑے ہوئے اور ایوان میں موشن پکچرز ترمیمی بل 2023 پیش کرنے کا عمل شروع کیا۔
یہ دیکھتے ہی اراکین سینیٹ بھی اپنی نشستوں پر کھڑے ہوگئے اور احتجاج شروع کر دیا، انہوں نے کہا کہ نگران حکومت قانون سازی نہیں کر سکتی۔ اس احتجاج میں اراکین کی اکثریت شامل تھی۔
انہوں نے نگران حکومت کی جانب سے بل پیش کرنے کے عمل کی شدید مخالفت کرتے ہوئے ایوان میں شور شرابہ کیا۔
مسلم لیگ ن سے منسلک سینیٹر سعدیہ عباسی نے کہا کہ نگران حکومت کا کام قانون سازی کرنا نہیں ہے، ایوان میں بل پیش نہیں کیے جا سکتے۔ ایسی ’نئی روایات نہ ڈالیں، یہ راستہ مت کھولیں۔ یہ عمل پارلیمان کی بالادستی کے خلاف ہے۔‘
اس موقعے پر چیئرمین سینیٹ نے کہا: ’ابھی صرف بل پیش کیا جا رہا ہے، بعد میں کمیٹی کو جائے گا، تاہم بل کی منظوری دونوں ایوانوں کی موجودگی میں ہی ہوگی۔ اس بل کو کمیٹی میں بھیج رہے ہیں۔‘
سینیٹ میں قائد حزب اختلاف ڈاکٹر شہزاد وسیم نے کہا کہ نگران حکومت کا یہ کام نہیں کہ وہ قانون سازی شروع کرے۔
’یہ بلینکٹ کور نہیں دیا جا سکتا، یہ روایت نہ ہی ملک اور نہ پارلیمان کے مفاد میں ہے۔ اسے آگے نہ چلنے دیں۔‘
جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ ’نگران حکومت کے پاس قانون سازی کا مینڈیٹ نہیں ہے کیوں کہ پارلیمان موجود نہیں ہے۔ آرڈیننس جاری کیا جانا پارلیمان کو بائی پاس کرنا ہے۔‘
چیئرمین سینیٹ نے نگران وزیر اطلاعات کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بتائیں کہ اس بل کو لانے میں جلدی کیوں ہے؟
مرتضیٰ سولنگی نے جواب دیا کہ ’آرڈینس کا اجرا آرٹیکل 89 کے تحت حکومت کا اختیار ہے، یہ بل کی صورت میں لازمی طور پر پیش کرنے ہیں۔‘
نگران وزیر اطلاعات کی تقریر کے دوران ہی اپوزیشن نے احتجاج دوبارہ شروع کر دیا اور کورم کی نشاندہی کی گئی، جس کے باعث چیئرمین سینیٹ نے نگران وزیر اطلاعات کو روکا اور کہا کہ ’ایک منٹ رک جائیں کورم کی نشاندہی ہوگئی ہے۔‘
اس کے بعد مرتضیٰ سولنگی اپنی نشست پر بیٹھ گئے اور بل پیش ہونے کا عمل مکمل نہ ہو سکا۔
کورم پورا ہونے کی صورت میں سینیٹ کا اجلاس 29 دسمبر 2023 کی صبح ساڑھے 10 بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔