اسلام آباد پولیس کی جانب سے وفاقی دارالحکومت میں احتجاج کرنے والی بلوچ یکجہتی کمیٹی کے گرفتار تمام شرکا کو رہا کیے جانے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے جمعے کو بلوچ مظاہرین کی گرفتاریوں کے خلاف دائر کیا گیا کیس نمٹا دیا۔
بلوچستان کے علاقے تربت سے بلوچ نوجوان بالاچ بخش کے ماورائے عدالت قتل کے خلاف شروع کیے جانے والے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے لانگ مارچ کے مظاہرین 20 دسمبر کو اسلام آباد پہنچنے کے بعد اس کیمپ میں شامل ہو گئے تھے، جو گذشتہ ایک ماہ قبل بلوچ لاپتہ اور جبری طور پر گمشدہ افراد کی واپسی کے لیے نیشنل پریس کلب کے باہر لگایا گیا تھا۔
جب یہ مظاہرین اسلام آباد پہنچے تھے تو ان کے خلاف پولیس نے کریک ڈاؤن کر کے 283 مردوں اور تقریبا 100 خواتین کو گرفتار یا تحویل میں لیا گیا تھا، جس کے بعد بلوچ یکجہتی کمیٹی نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
جمعرات کی شب بلوچ یکجہتی کمیٹی کی منتظم سائرہ بلوچ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ گرفتار کیے گئے باقی 34 مظاہرین کو رہا کر دیا گیا ہے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے آج جب کیس کی سماعت کا آغاز کیا تو درخواست گزار کے وکیل عطا اللہ کنڈی نے بتایا کہ ’وہ انتظامیہ کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے اپنے الفاظ کا پاس رکھتے ہوئے تمام گرفتار بلوچ رہا کیے، موجودہ حالات میں ملک میں امید کی کرن عدالتیں ہی ہیں۔‘
جسٹس میاں گل حسن نے ریمارکس دیے کہ ’عدالتیں امید کی کرن ہیں؟ نہیں، پتا نہیں۔‘
وکیل عطا کنڈی نے کہا کہ ’پولیس نے مظاہرین کے ساتھ جو غیر قانونی اقدام کیے، وہ عدالت کو دیکھنے چاہییں۔‘ جس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا: ’عدالت نہیں چاہتی کہ کوئی ایسی صورت حال بنے کہ ہماری وجہ سے ان کے خلاف جارحیت شروع ہو جائے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وکیل عطا کنڈی نے کہا کہ ’انتظامیہ بلوچ خواتین کو 24 گھنٹے گرفتار رکھنے پر معافی مانگے، انہیں وضاحت کرنی چاہیے کہ بلوچ خواتین کو گرفتار کیوں کیا گیا؟ پولیس کو تنبیہ کی جائے کہ آئندہ ایسی کسی ہدایت پر ایسا غیر قانونی اقدام نہ اٹھائے۔‘
جسٹس میاں گل نے ریمارکس دیے کہ ’اگر وہ رہا ہو گئے ہیں تو اچھی بات ہے، ہمیں اچھے کی توقع کرنی چاہیے۔‘ انہوں نے ایس ایس پی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا: ’آپ کا عدالت کے ساتھ تعاون کا شکریہ، اب آئندہ بھی ایسے ہی ہونا چاہیے۔‘
دوسری جانب بلوچ یکجہتی کمیٹی کا دھرنا اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب کے باہر تاحال جاری ہے۔ گذشتہ روز ہونے والی پریس کانفرنس میں کمیٹی کی رہنما اور سماجی کارکن ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے میڈیا کے سامنے مطالبات رکھے تھے، جن میں سے ایک مظاہرین کی رہائی کا مطالبہ بھی تھا۔
ماہ رنگ بلوچ نے جمعرات کی شب ایکس پر جاری کی گئی ایک ویڈیو میں 34 افراد کی رہائی کی تصدیق کی تھی، جن میں سے بیشتر طلبہ ہیں۔
Finally, remaining 34 protesters has been returned now.#MarchAgainstBalochGenocide pic.twitter.com/sOY1kcnyl4
— Baloch Yakjehti Committee (Islamabad) (@BYCislamabad) December 28, 2023
ماہ رنگ بلوچ نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ 300 سے زائد لوگوں کے خلاف جو ایف آئی آر درج کی گئی ہیں، ان ایف آئی آرز کو ختم کیا جائے۔ ’یہ طلبہ یہاں پڑھنے آئے ہیں، عدالتوں میں پیشیاں دینے نہیں۔‘
دوسری جانب نگران وفاقی وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے بدھ کو کہا تھا کہ ’اس وقت بلوچستان سے آنے والے بلوچ مظاہرین سے کوئی مذاکرات نہیں ہو رہے۔‘
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’حکومت بلوچ مظاہرین کے مطالبات کی فہرست، مذاکرات کے وقت اور مقام کا انتظار کر رہی ہے۔‘
مرتضیٰ سولنگی نے رواں ہفتے کے آغاز پر ایک نجی ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی خواہش ہے کہ ’مظاہرین عزت، وقار اور سلامتی کے ساتھ اپنے گھروں کو واپس جائیں اور مزید مذاکرات اسلام آباد میں نہ ہوں۔‘
علاوہ ازیں بلوچستان کے نگران وزیراعلیٰ میر مردان ڈومکی نے بدھ کو یقین دلایا تھا کہ ’اسلام آباد میں دھرنا دینے والی بلوچ یکجہتی کمیٹی کے جائز مطالبات پر عمل درآمد کیا جائے گا۔‘
مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق کوئٹہ میں ایک اجلاس سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ ’اسلام آباد میں دھرنے والوں سے بات چیت کے لیے وفاقی حکومت نے کمیٹی قائم کر دی ہے، جبکہ بالاچ بلوچ کے واقعے سے متعلق تحقیقات کے لیے بھی علیحدہ علیحدہ کمیٹیاں قائم کر دی گئی ہیں۔‘
علی مردان ڈومکی کا کہنا تھا کہ ’معاملات کو قوانین کے مطابق افہام و تفہیم سے حل کرنا چاہتے ہیں جبکہ بامقصد بات چیت اور مذاکرات کے لیے ہمارے دروازے کھلے ہیں۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔