سڈنی ٹیسٹ پاکستان کے دورہ آسٹریلیا کا آخری مقابلہ ہے جو بدھ (تین جنوری) سے شروع ہو رہا ہے۔
پاکستان اس سیریز میں پہلے ہی شکست کا داغ سجا چکا ہے اور اب آخری ٹیسٹ ایک خانہ پری ہے، جس کے نتیجے میں اگرچہ کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی لیکن پاکستانیوں کی کثیر تعداد کے سڈنی میں قیام پذیر ہونے کے باعث اس میچ میں پاکستانی پرچموں کی بڑی تعداد میں نظر آنے کی امید ہے۔
پاکستانی ٹیم کی بدترین کارکردگی کے باوجود پی سی بی یا ٹیم مینجمنٹ کو کوئی فکر نہیں ہے۔ عارضی چیئرمین ذکا اشرف اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ آسٹریلیا یاترا پر ہیں، جس پر بہت تنقید کی جا رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر آنے والی تصاویر پر ذکا اشرف کی غیر ضروری ملاقاتوں اور کھلاڑیوں کے ساتھ بات چیت کی منفی خبروں پر بھرپور تنقید ہو رہی ہے۔
گلابی رنگ ہر طرف
سڈنی ٹیسٹ میں ایک منفرد بات یہ ہوگی کہ دونوں ٹیمیں گلابی رنگ کی کیپ پہنیں گی اور سینے پر ایک گلابی ربن ہوگا جبکہ کرکٹ کمنٹیٹر سے لے کر منتظمین تک گلابی کوٹ اور قمیصیں زیب تن کیے ہوئے ہوں گے۔ اسی طرح تماشائی بھی گلابی رنگ کے ملبوسات میں ہوں گے کیونکہ سڈنی ٹیسٹ میں سابق فاسٹ بولر گلین مک گرا کی اہلیہ جین میک گرا کی یاد منائی جاتی ہے جو کینسر سے وفات پاگئی تھیں۔
گلین کی خدمات کے اعتراف اور ان کے دکھ میں شریک ہونے کے لیے کینگرو کرکٹ بورڈ نے ٹیسٹ میچ کا ایک دن مکمل طور پر ان سے موسوم کر دیا ہے۔
اس دن کے ٹکٹوں کی فروخت کی ساری رقم میک گرا فاؤنڈیشن کو دی جاتی ہے، جو کینسر کے مرض پر تحقیق کے لیے مختلف پروگرام سپانسر کرتا ہے۔
سڈنی ٹیسٹ کو گذشتہ 15 سال سے ’پنک ٹیسٹ‘ کہا جاتا ہے۔ 2009 میں جین مک گرا کی وفات کے بعد سے اس کا آغاز ہوا تھا اور اب یہ رنگ ایک تاریخی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔
ڈیوڈ وارنر کا آخری ٹیسٹ
ڈیوڈ وارنر آسٹریلیا کے مایہ ناز اوپنر اور ایک شاندار کیریئر کے حامل ہیں لیکن اپنے جارحانہ رویے کے باعث مشکل کھلاڑی تصور کیے جاتے ہیں۔ وہ اگرچہ زبان کے تیز ہیں اور ماضی میں کوچز کے ساتھ الجھتے رہے ہیں لیکن ہر تنقید کا جواب اپنے بلے سے دیتے ہیں۔
37 سالہ ڈیوڈ وارنر اپنا آخری اور 112واں ٹیسٹ سڈنی میں کھیلیں گے اور اس کے بعد ریٹائر ہوجائیں گے۔ وہ 111 ٹیسٹ میں 44.95 کی اوسط سے آٹھ ہزار 695 رنز بنا چکے ہیں، جو کسی بھی آسٹریلوی اوپنر کے سب سے زیادہ رنز ہیں۔ اس سے قبل میتھیو ہیڈن کے آٹھ ہزار 625 رنز تھے۔ وارنر اب تک 26 سینچریاں بنا چکے ہیں۔
وارنر نے ایک روزہ کرکٹ سے بھی ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا ہے، البتہ وہ ضرورت پڑنے پر 2025 میں چیمپیئنز ٹرافی پاکستان کے لیے دستیاب ہوں گے۔
وارنر 161 ون ڈے میچوں میں 22 سنچریوں کی مدد سے چھ ہزار 932 رنز بناچکے ہیں۔ گذشتہ ورلڈکپ میں وہ آسٹریلیا کی طرف سے سب سے زیادہ رنز بنانے والے کھلاڑی تھے۔ ڈیوڈ وارنر نے 99 ٹی ٹوئنٹی میچوں میں دو ہزار 894 رنز بنا رکھے ہیں۔
ڈیوڈ وارنر کے کیریئر میں بہت سے نشیب وفراز آئے اور وہ بال ٹیمپرنگ کے کیس میں ایک سال پابندی کا شکار بھی رہے۔
2018 میں جنوبی افریقہ کے دورے کے دوران جب بحیثیت نائب کپتان انہوں نے اعتراف کیا کہ انہوں نے گیند کی حالت کو ریگ مال پیپر سے خراب کرنے کی کوشش کی تو ان پر کرکٹ آسٹریلیا نے کپتان سٹیو سمتھ کے ساتھ پابندی لگا دی۔ اس پابندی نے ان کے کیریئر کو داغ دار کردیا۔ وارنر ہمیشہ اپنی اس غلطی پر نادم رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جب وہ 2019 کی ایشز سیریز میں واپس آئے تو ان کی کارکردگی بہت خراب رہی اور 10 اننگز میں وہ 95 رنز ہی بنا سکے۔ شاید یہاں وہ ہمیشہ کے لیے ڈراپ ہوجاتے لیکن پاکستان کے خلاف 20-2019 کی سیریز کے دوران ایڈیلیڈ ٹیسٹ میں 335 رنز کی اننگز نے ان کے کیریئر کو نئی زندگی دے دی۔ یہ آسٹریلیا کے کسی بھی بلے باز کا دوسرا بہترین انفرادی سکور ہے۔
ڈیوڈ وارنر کے لیے گذشتہ ایشز سیریز بھی ابتدا میں خراب تھی اور وہ لارڈز ٹیسٹ کے بعد ریٹائر ہوجانا چاہتے تھے۔ انہوں نے طے کرلیا تھا کہ اگر ان سے رنز نہ بنے تو وہ لارڈز میں الوداع کہہ دیں گے لیکن ٹیسٹ چیمپیئن شپ کے فائنل میں انڈیا کے خلاف 43 رنز کی اننگز نے انہیں حوصلہ دیا اور انہوں نے پاکستان کے خلاف سڈنی ٹیسٹ میں رخصتی کا اعلان کردیا۔
دنیائے کرکٹ میں ایک اوپنر کی حیثیت سے پانچویں سب سے زیادہ رنز بنانے والے وارنر اب سڈنی ٹیسٹ میں پاکستان کے خلاف جیت کر الوداع ہونا چاہتے ہیں۔
توقع ہے کہ جب وہ سڈنی میں آخری اننگز کھیلیں گے تو شائقین کی ایک بہت بڑی تعداد ان کو رخصت کرے گی۔
پاکستانی ٹیم
سڈنی ٹیسٹ میں پاکستان کی زخم خوردہ ٹیم کے لیے کچھ کر دکھانے کا آخری موقع ہے۔ شائقینِ کرکٹ کو بابر اعظم سے بہت توقعات ہیں کہ شاید وہ رنز کر جائیں۔
پاکستان اپنی ٹیم میں دو تبدیلیاں کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ امام الحق کی جگہ صائم ایوب کو ٹیسٹ کیپ دینے کی تجویز ہے۔ امام الحق خراب کارکردگی کے باعث ریڈار پر ہیں حالانکہ کارکردگی کی بنیاد پر پوری ٹیم ہی ڈراپ ہوسکتی ہے۔
دوسری تبدیلی حسن علی کی جگہ ابرار احمد یا ساجد خان ہوسکتے ہیں۔ اگر ابرار فٹ ہوگئے تو وہ کھیلیں گے، ورنہ ساجد خان سپنر کی حیثیت سے جگہ بنائیں گے۔ سڈنی کی پچ سپنرز کو مدد دیتی ہے، اس لیے پاکستانی سپنرز کے پاس کافی مواقع ہوں گے لیکن بیٹنگ کا ساتھ ضروری ہے۔
پاکستان کی بیٹنگ اگرچہ اب تک سیریز میں بہت خراب رہی ہے، لیکن میلبرن ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں پاکستان نے کسی حد تک مقابلہ کرکے آسٹریلیا کو کچھ دیر کے لیے پریشان کردیا تھا۔ اگر بیٹنگ نے بولنگ کاساتھ دیا تو شاید ٹیم گرین سڈنی کی کسی تاریخ کو دہرا دے۔
سڈنی میں اب تک پاکستان نے دو ٹیسٹ میچ جیتے ہیں۔ ایک میچ عمران خان کی تن تنہا بولنگ کے باعث اور دوسرا میچ وسیم اکرم اور مشتاق احمد کی بولنگ سے۔
کیا ایک اور سڈنی ٹیسٹ تاریخ میں لکھا جائے گا۔ اس کا جواب اگرچہ مشکل تو نہیں ہے لیکن کرکٹ وہ میدان ہے جہاں تاریخ کسی بھی لمحے بدل سکتی ہے۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔