تاحیات نااہلی کیس میں سمیع اللہ بلوچ کا بار بار ذکر، آخر یہ ہیں کون؟

سپریم کورٹ میں تاحیات نااہلی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ججوں اور وکلا نے سمیع اللہ بلوچ کیس کا بار بار تذکرہ کیا، جس کے باعث عام پاکستانیوں میں تجسس پیدا ہوا کہ آخر یہ سمیع اللہ بلوچ کون ہیں اور ان کا کیس کیا ہے؟

سپریم کورٹ آف پاکستان کی عمارت کے بعد بڑی تعداد میں لوگ موجود ہیں (انڈپینڈنٹ اردو)

سپریم کورٹ آف پاکستان کے سامنے آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح اور سیاست دانوں کی تاحیات نااہلی کی مدت کے تعین سے متعلق سماعت میں سمیع اللہ بلوچ کیس کا کئی مرتبہ تذکرہ ہوا۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سماعت کرنے والے سات رکنی بینچ نے جمعے کو اس کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ بینچ کے دیگر اراکین میں جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔

اس مقدمے کی کارروائی سپریم کورٹ آف پاکستان کی ویب سائٹ پر براہ راست دکھائی جا رہی ہے، جہاں سے ملک کے تمام سرکاری اور نجی ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز بشمول یوٹیوب اور فیس بک پر بھی کارروائی کو نشر کیا جا رہا ہے۔

اس کارروائی میں سپریم کورٹ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہل قرار دیے گئے امیدواروں کی الیکشن ایکٹ 2017 میں کی گئی ترامیم کی روشنی میں الیکشن لڑنے کی اہلیت یا نااہلیت حتمی فیصلہ کرنا چاہتی ہے۔ 

آرٹیکل 62 ون ایف آئین کی وہی شق ہے جس کے تحت سابق وزیر اعظم نواز شریف اور استحکام پاکستان پارٹی کے چیئرمین جہانگیر ترین کو نااہل قرار دیا گیا تھا۔

سپریم کورٹ اس بات کا مستقل تعین کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ آیا آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہل قرار دیے گئے امیدوار الیکشنز ایکٹ 2017 میں کی گئی ترامیم کی روشنی میں الیکشن لڑ سکتے ہیں۔

اس مقدمے کی سماعت کے دوران ججوں اور وکلا نے سمیع اللہ بلوچ کیس کا بار بار تذکرہ کیا، جس کے باعث عام پاکستانیوں میں تجسس پیدا ہوا کہ آخر یہ سمیع اللہ بلوچ کون ہیں اور ان کا کیس کیا ہے؟

سمیع اللہ بلوچ کون ہیں؟

سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران بلوچستان سے تعلق رکھنے والے قوم پرست رہنما اور بلوچ بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی ۔ مینگل) کے رہنما ثنا اللہ بلوچ نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بتایا کہ سمیع اللہ بلوچ ان کے چھوٹے بھائی ہیں۔

اس خاندان کا تعلق رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کے بہت ہی پسماندہ ضلع خاران سے ہے۔

سمیع اللہ بلوچ بھی اپنے بڑے بھائی کی طرح بلوچستان اسمبلی کی نسشت کے لیے انتخابات میں حصہ لیتے رہے ہیں، تاہم 2008 اور 2018 کے انتخابات میں سمیع اللہ بلوچ کے کاغذات نامزدگی جعلی ڈگری کے باعث مسترد کر دیے گئے تھے۔

سمیع اللہ بلوچ کیس کیا ہے؟

سمیع اللہ بلوچ نے کاغذات نامزدگی کے مسترد ہونے کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا اور یہ کیس مختلف مراحل سے ہوتا ہوا سپریم کورٹ آف پاکستان پہنچا۔

سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے 13 اپریل 2018 کو ایک تاریخی فیصلے میں آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کو تاحیات قرار دیا تھا۔

سمیع اللہ بلوچ کیس میں سپریم کورٹ کے 2018 کے فیصلے کے پیش نظر قانونی مسئلہ پیدا ہوا، جب عدالت عظمیٰ نے فیصلہ دیا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کو ’مستقل‘ قرار دیا تھا۔

یہ فیصلہ سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار، جسٹس شیخ عظمت سعید، سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سجاد علی شاہ نے جاری کیا۔

تاہم جون 2023 میں الیکشن ایکٹ 2017 میں ایک ترمیم لائی گئی، جس میں واضح کیا گیا کہ انتخابی نااہلی کی مدت تاحیات نہیں بلکہ پانچ سال کے لیے ہو گی۔

یہ مخمصہ گذشتہ ماہ سپریم کورٹ میں انتخابی نااہلی کے تنازعے کے دوران پیدا ہوا، جب سردار میر بادشاہ خان قیصرانی کو جعلی ڈگری کی وجہ سے نااہل قرار دیا گیا تھا۔ ان کی اپیل ابھی لاہور ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آرٹیکل 62 ون ایف، جو پارلیمنٹ کے کسی رکن کے ’صادق اور امین‘ (ایماندار اور صالح) ہونے کی پیشگی شرط رکھتا ہے، وہی شق ہے جس کے تحت 28 جولائی 2017 کو سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو پاناما پیپرز کیس میں نااہل قرار دیا تھا۔

اسی طرح اس وقت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما جہانگیر ترین کو بھی اُسی سال 15 دسمبر کو سپریم کورٹ کے ایک الگ بینچ نے اسی شق کے تحت نااہل قرار دیا گیا تھا۔

فیصلے کے بعد نواز شریف اور جہانگیر ترین دونوں کو عوامی عہدہ رکھنے کے لیے نااہل قرار دیا گیا، جب تک کہ ان کے خلاف عدالتوں کے متعلقہ اعلانات جاری نہیں ہوتے۔

جسٹس عمر عطا بندیال کی جانب سے سنائے گئے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت کسی بھی رکن پارلیمنٹ یا سرکاری ملازم کی نااہلی مستقبل میں ’مستقل‘ ہو گی۔ ایسا شخص الیکشن نہیں لڑ سکتا اور نہ ہی پارلیمنٹ کا رکن بن سکتا ہے۔

بینچ کی سربراہی کرنے والے اس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے فیصلہ سنانے سے قبل ریمارکس دیے تھے کہ عوام ’اچھے کردار کے لیڈر‘ کے مستحق ہیں۔

فیصلے میں کہا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے ذریعے پارلیمنٹ کے انتخاب کے لیے امیدوار کی اہلیت پر عائد پابندی دیانت دار، راست باز، سچے، قابل اعتماد اور سمجھدار منتخب نمائندوں کی عوامی ضرورت اور عوامی مفاد کو پورا کرتی ہے۔  

فیصلے میں ایک اضافی نوٹ لکھنے والے بینچ کے رکن جسٹس شیخ عظمت سعید نے لکھا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 63 کے بعض ذیلی آرٹیکلز میں نااہلی کی مدت متعین کی گئی ہے لیکن آرٹیکل 62 ون ایف میں ایسی شق نہیں ملتی کیونکہ آئین بنانے والوں نے ایسا نہ کرنے کا انتخاب کیا۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان