تاحیات نااہلی کی مدت کا تعین، سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کر لیا

سپریم کورٹ میں جمعے کو سیاست دانوں کی تاحیات نااہلی کی مدت کے تعین سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سات رکنی لارجر بینچ نے اس کیس کی سماعت کی۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کی عمارت کا ایک منظر (سہیل اختر/انڈپینڈنٹ اردو)

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جمعے کو 62 ون ایف کی تشریح اور سیاست دانوں کی تاحیات نااہلی کی مدت کے تعین سے متعلق کیس میں فیصلہ محفوظ کر لیا۔

سپریم کورٹ میں جمعے کو سیاست دانوں کی تاحیات نااہلی کی مدت کے تعین سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سات رکنی لارجر بینچ نے اس کیس کی سماعت کی۔

اس سماعت میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔

جمعے کو سماعت کا آغاز ہوا تو استحکام پاکستان پارٹی کے سربراہ جہانگیر خان ترین کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا آغاز کیا۔

اس موقعے پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے: ’ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ انتخابات سے متعلق انفرادی کیس نہیں سنیں گے، اسے اگلے ہفتے کسی اور بینچ میں لگائیں گے۔ آئینی تشریح سے متعلق کیس سنیں گے۔‘

چیف جسٹس نے کہا کہ آئین میں نااہلی جیسی ترامیم ایوب خان کے دور میں شروع ہوئیں اور آگے چلتی گئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پورا پاکستان پانچ سال نااہلی کی مدت کے قانون سے خوش ہے، کسی نے اسے چیلنج ہی نہیں کیا۔

’ہم نے نااہلی سے متعلق کیس میں پبلک نوٹس جاری کیا مگر کوئی ایک سیاسی جماعت فریق نہیں بنی، پاکستان کے عوام کا کسی کو خیال نہیں ہے۔ ملک کو تباہ کر دیں کچھ نہیں ہوتا مگر کاغذات نامزدگی میں ایک غلطی تاحیات نااہلی کر دیتی ہے۔‘

چیف جسٹس نے وکیل مخدوم علی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم آئینی تاریخ اور بنیادی حقوق کو نظرانداز کیوں کر رہے ہیں؟ آئین پر جنرل ایوب کے وقت سے لے کر آگے تک تجاوز کیا گیا، پورے ملک کو تباہ کرنے والا پانچ سال بعد اہل ہو جاتا ہے۔ صرف ایک جنرل نے آئین میں یہ شق ڈال دی تو ہم سب پابند ہو گئے؟‘

’نااہلی کی کوئی تو منطق ہونی چاہیے‘

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے: ’کہا گیا کہ عام قانون سازی آئینی ترمیم کا راستہ کھول سکتی ہے، اس کا کیا مطلب ہے کہ ہم اپنی مرضی سے جو فیصلہ چاہیں کر دیں؟ کیا ہمارے پارلیمان میں بیٹھے لوگ بہت زیادہ سمجھدار ہیں؟ کوئی قتل کر کے لواحقین سے صلح کر لے تو معاملہ ختم ہو جاتا ہے، کاغذات نامزدگی میں کچھ غلط ہو جائے تو تاحیات نااہل کیسے ہو جائے گا؟ نااہلی کی کوئی تو منطق ہونی چاہیے۔‘

جسٹس جمال خان نے سوال کیا کہ فراڈ پر ایک شخص کو سزا ہو جائے تو کیا سزا کے بعد انتخابات لڑ سکتا ہے؟ جس پر وکیل مخدوم علی نے جواب دیا کہ دھوکہ دہی میں سزا پوری ہونے کے بعد انتخابات میں حصہ لیا جاسکتا ہے۔

وکیل مخدوم علی خان کے مطابق: ’الیکشن ٹریبیونل پورے الیکشن کو بھی کالعدم قرار دے سکتا ہے، الیکشن میں کرپٹ پریکٹس کی سزا دو سال ہے۔‘

چیف جسٹس نے کہا کہ نیب قانون میں بھی سزا 10 سال کروائی گئی۔ ’آئین وکلا کے لیے نہیں پاکستانی عوام اور پاکستان کے لیے ہے، آئین کو آسان کریں، آئین کو اتنا مشکل نہ بنائیں کہ لوگوں کا اعتماد ہی کھو دے۔‘

اس موقعے پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ’عوام کو فیصلہ کرنا چاہیے کہ کون صادق و امین ہے۔‘ اسی دوران جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ ’کیا عدالت الیکشن ایکٹ کے سیکشن 232 کو کالعدم قرار دے سکتی ہے؟‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جس پر وکیل مخدوم علی نے کہا کہ ’سیکشن 232 عدالت کے سامنے چیلنج نہیں کیا گیا اس کو کالعدم قرار نہیں دیا جا سکتا۔ سیکشن 232 تین کو اگلی پارلیمنٹ ختم کرسکتی ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’عدالت نے طے کرنا ہے کہ سمیع اللہ بلوچ کیس درست تھا یا نہیں، اگر یہ کیس کالعدم قرار دیا گیا تو الیکشن قانون کا اطلاق ہوگا۔‘

 جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ’ہم سیکشن 232 کو کیسے کالعدم قرار دیں وہ تو ہمارے سامنے ہے ہی نہیں۔‘

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ تاحیات نا اہلی کا اصول عدالتی فیصلے سے طے ہوا، جس پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا: ’میرے خیال میں فیصلے میں تاحیات کا ذکر نہیں ہے۔

وکیل مخدوم علی نے کہا کہ فیصلے میں کہا گیا کہ جب تک ڈیکلریشن رہے گا، نااہلی رہے گی، نااہلی کی مدت مناسب وقت کے لیے ہونی چاہیے، تاحیات نہیں۔

اس موقعے پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’پورا پاکستان پانچ سال نااہلی کی مدت کے قانون سے خوش ہے، کسی نے پانچ سال نااہلی کا قانون چیلنج ہی نہیں کیا۔‘

جس پر وکیل مخدوم علی نے کہا کہ سمیع اللہ بلوچ فیصلے کو ختم کریں کیونکہ بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا۔

وکیل مخدوم علی خان نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ ’سمیع اللہ بلوچ کیس کا فیصلہ لکھنے والے جج بعد میں تاحیات نااہلی کے اصول سے پیچھے ہٹتے گئے۔ خواجہ آصف، شمعونہ ہاشمی، یار محمد رند اور فیصل واوڈا کیس میں 62 ون ایف کی الگ تشریح کی گئی، اس کا مطلب ہے کہ عدلیہ خود تاحیات نااہلی سے پیچھے ہٹ رہی تھی، نواز شریف کیس میں بیٹے سے تخواہ نہ لینے پر تاحیات نااہل کیا گیا۔‘

جس پر چیف جسٹس نے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس عدالت میں کسی کا نام مت لیں۔

’میں نہیں چاہتا کہ یہاں سیاسی لوگوں کے نام لیے جائیں یا اس معاملے کو سیاسی رنگ دیا جائے۔ جو شخص خود عدالت نہیں آیا اس کی وکالت بھی نہ کریں۔‘

دلائل کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا: ’آج تو نہیں مگر جلدی مختصر فیصلہ سنائیں گے۔‘

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست