ولیم شیکسپیئر نے جب اپنے ڈرامے رومیو اور جولیٹ میں سوال پوچھا کہ ’نام میں کیا رکھا ہے؟‘ تو اسے کیا معلوم تھا کہ کئی دہائیوں بعد یہی سوال پاکستان میں پوچھا جائے گا لیکن اس کا تناظر وہ نہیں ہو گا جو رومیو جولیٹ میں تھا۔
پاکستان میں یہ سوال خلیل الرحمٰن کے یا کسی اور کے ڈرامے میں نہیں بلکہ سپریم کورٹ میں پوچھا جائے گا۔
حال ہی میں ایک کیس کی سماعت کے دوران سینیئر ایڈووکیٹ سردار لطیف کھوسہ جب روسٹرم پر آئے تو ان سے کہا گیا کہ نام کے ساتھ سردار، نواب اور پیر لکھنا بند کر دیں۔
1976 کے بعد سے سرداری نظام ختم ہو چکا ہے، یا تو ملک کا آئین چلائیں یا پھر سرداری نظام۔ ملک کے آئین کے ساتھ اب مذاق کرنا بند کر دیں۔ سردار اور نوابوں کو چھوڑ دیں، اب غلامی سے نکل آئیں، سردار لکھ کر اپنا رتبہ بڑا کرنے کی کوشش نہ کیا کریں۔
اب کوئی یہ سمجھنے سے قاصر ہو، کہ جناب کاغذوں پر تو سرداری نظام 1976 میں ختم ہو چکا ہے لیکن ایڈووکیٹ صاحب تو 1946 میں پیدا ہوئے اور بلوچ قبیلے کھوسہ کے سردار خاندان میں ان کا جنم ہوا تو وہ اب کیا کریں؟
اب بلوچستان ہی سے تعلق رکھنے والوں کو بلوچستان کے بارے میں بتایا جائے تو کچھ عجیب لگتا ہے۔ ان کو اب یہ بتانا بھی ضروری ہو گا کہ بلوچستان میں 46 بلوچ قبیلے ہیں اور تقریباً 70 سردار ہیں۔ بلوچستان میں یہی سردار طاقت کا سرچشمہ ہیں اور انہیں کے ہاتھ میں اپنے قبیلے میں بسنے والے عام بلوچوں کی زندگیوں کا کنٹرول ہے۔
بلوچستان کا یہ قبائلی نظام سینکڑوں برس کے ارتقائی عمل کا نتیجہ ہے۔ اس کو پختگی انگریزوں کے زمانے میں ملی جب برطانوی راج نے لیویز میں لوگوں کو بھرتی کرانے کے لیے سرداروں کو رقم دینی شروع کی اور سرداروں ہی کو اتھارٹی دی کہ وہ جس طرح بھی چاہیں اپنے علاقوں میں امن و امان قائم رکھیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لیکن فکر تو یہ ہے کہ اگلی باری کس کی ہو گی؟ خان؟ یا پھرملک؟ یا سید؟ اب دیکھنا یہ ہے کہ روسٹرم پر کون سا ایڈوکیٹ جاتا ہے جس کے نام میں خان ہے۔
ان کو یہ کہا جائے گا کہ خان تو ترک منگول نژاد نام ہے جسے تاریخی طور پر فوجی کمانڈر یا رائلٹی کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ پاکستان میں تو رائلٹی یعنی بادشاہت ہے نہیں تو نام کے ساتھ خان کیوں استمعال کیا جا رہا ہے۔
میرے دادا کے زمانے میں اخبار میں ایک تصویر شائع ہوئی جس میں اس وقت کے شاہ ایران محمد رضا پہلوی اپنے بیٹے اور ولی عہد رضا کے ہمراہ کھڑے ہیں۔ یہ تصویر میرے دادا کو اتنی پسند آئی کہ انھوں نے تصویر کاٹ کر اپنے صندوق میں رکھ لی اور میرے والد سے کہا کہ تمہارا بیٹا ہو گا تو اس کا نام رضا رکھیں گے۔ وہ تصویر اب بھی ہمارے پاس موجود ہے اور اس کو بہت احتیاط سے رکھا گیا ہے۔
لیکن اب تو کچھ ڈر ہی لگتا ہے کہ کہیں مجھے بھی کسی دن یہ نہ کہہ دیا جائے کہ پاکستان کو ایک آزاد ملک بنے 77 سال ہو چکے ہیں اور تمہارے دادا نے سلطنت فارس کی محبت میں تمہارا نام رکھا۔
ٹھیک ہے سلطنت فارس کے وقت میں شاندار بیوروکریسی ہوا کرتی تھی جس کی وجہ سے سلطنت میں قانون سب کے لیے برابر ہوا کرتا تھا اور اسی وجہ سے شہنشاہ کو اتنی بڑی سلطنت پر حکمرانی کرنے میں دقت نہیں ہوتی تھی۔
لیکن تم تو پاکستان میں ہو جہاں قانون کی بالادستی ناپید ہے، عدلیہ قانون کی بجائے ناموں پر غور کر رہی ہے جہاں آئین کی کوئی وقعت نہیں رہی اور جس کے ہاتھ میں ڈنڈا اسی کا راج ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔