خلا سے سورج کا مشاہدہ کرنے والے انڈیا کے پہلے مشن نے ہفتے کو اہم سنگ میل عبور کر لیا۔
آدتیہ ایل ون خلائی جہاز زمین اور ہمارے قریب ترین ستارے (سورج) کے درمیان فاصلے کے 10 ویں حصے میں اپنی منزل پر پہنچ گیا۔
انڈین سپیس ریسرچ آگنائزیشن (اسرو) کے ادتیہ ایل ون اکاؤنٹ سے ایکس پر کی گئی پوسٹ میں کہا گیا کہ ’میں بحفاظت لاگرینج پوائنٹ ایل ون، اپنے سیارے سے 15 لاکھ کلو میٹر کے فاصلے پر پہنچ گیا ہوں۔ بہت دور آ کر خوش ہوں تاہم سورج کے اسرار جاننے کے لیے قریبی رابطے میں ہوں۔‘
انڈین وزیر اعظم نریندر مودی نے اعلان کیا کہ خلائی جہاز ہفتے کو انڈین وقت کے مطابق شام چار بجے (صبح 10:30 جی ٹی) سورج اور زمین کے درمیان لاگرینج پوائنٹ ون (ایل ون) کے گرد ہالو مدار میں کامیابی سے داخل ہوا۔
ایل ون میں خلائی جہاز توانائی خرچ کیے بغیر سورج اور زمین کے مقابلے میں اپنی پوزیشن برقرار رکھ سکے گا۔ وہ دو اجرام فلکی کے کشش ثقل کے میدانوں کے درمیان مکمل طور پر متوازن ہو گا۔
مودی نے اپنی ایکس پوسٹ میں کہا کہ ’انڈیا نے ایک اور سنگ میل عبور کر لیا۔ انڈیا کی پہلی شمسی رصد گاہ آدتیہ ایل ون اپنی منزل تک پہنچ گئی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ ہمارے سائنس دانوں کی انتھک لگن کا ثبوت ہے جنہوں نے پیچیدہ خلائی مشنوں میں سے ایک کو عملی جامہ پہنایا۔ میں اس غیر معمولی کارنامے کو سراہنے میں قوم کے ساتھ ہوں۔‘
India creates yet another landmark. India’s first solar observatory Aditya-L1 reaches it’s destination. It is a testament to the relentless dedication of our scientists in realising among the most complex and intricate space missions. I join the nation in applauding this…
— Narendra Modi (@narendramodi) January 6, 2024
آدتیہ ایل ون خلائی جہاز کو دو ستمبر کو انڈیا کے مرکزی خلائی مرکز سری ہری کوٹا سے لانچ کیا گیا جہاں سے اسرو نے چند دن پہلے ہی چاند کے جنوبی قطب پر ایک خلائی جہاز اتار کر تاریخ رقم کی تھی۔
زمین سے تقریباً 15 لاکھ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایل ون کے مقام سے یہ خلائی جہاز سورج کا مسلسل مشاہدہ کرنے سمیت شمسی ہواؤں اور اس کی سطح پر دیگر حالتوں کا مطالعہ کرنے کا قابل ہو گا۔
اسرو خلائی جہاز کو ایل ون پوائنٹ میں مدار میں رکھنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس کو اپنے مقام پر رکھنے کے لیے محض کبھی کبھار اسے ضروری حرکت دی جائے گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خلائی جہاز میں سات سائنسی آلات موجود ہیں، جنہیں اسرو اور انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ایسٹروفزکس (آئی آئی اے)، بنگلورو اور پونے میں انٹر یونیورسٹی سینٹر فار ایسٹرونومی اینڈ ایسٹروفزکس (آئی یو سی اے اے) سمیت متعدد انڈین تحقیقی اداروں نے تیار کیا۔
ان آلات سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار کو استعمال کرتے ہوئے سائنس دان سورج کی مختلف پرتوں کا مطالعہ کریں گے جن میں اس کی فوٹوسفیئر، کروموسفیئر اور سب سے بیرونی کرونا پرت شامل ہیں۔ اس عمل سے سے مدار میں موجود سیاروں پر شمسی تابکاری کے اثرات کے بارے میں معلومات حاصل ہوں گی۔
اس سے قبل ہونے والی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ شمسی طوفانوں کی صورت میں سورج سے خارج ہونے والے توانائی کے ذرات زمین کے گرد چکر لگانے والے سیاروں کے ساتھ ٹکرا سکتے ہیں جس کی وجہ سے بعض اوقات مواصلاتی بلیک آؤٹ ہو جاتا ہے۔
چوں کہ مختلف قسم کی تابکاری زمین کی سطح تک نہیں پہنچتی اس لیے اس کی سطح پر آلات کی مدد اس تابکاری کا آسانی سے مطالعہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔
تاہم اس طرح کے مطالعے زمین کی فضا سے بہت دور سیارے کو استعمال کرتے ہوئے خلا میں کیے جا سکتے ہیں۔
اب تک اسرو آدتیہ ایل ون خلائی جہاز پر موجود آلات کی حالت کی کئی بار جانچ کر چکی ہے اور انہیں بہترین کام کرنے کے قابل پایا ہے۔
ہفتے کو انڈین خلائی مشن کی کامیابی اسرو کے کئی کامیاب مشنوں کے ایک سال بعد سامنے آئی جن میں بلیک ہولز کا مطالعہ کرنے کے لیے ملک کی پہلی خصوصی تحقیق کا آغاز بھی شامل ہے۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔
© The Independent