جنوبی افریقہ نے 29 دسمبر 2023 کو انصاف کی عالمی عدالت میں اسرائیل کے خلاف مقدمہ دائر کیا اور مطالبہ کیا کہ عدالت یہ واضح کرے کہ غزہ میں اسرائیل فلسطینی گروپ حماس کے خلاف کریک ڈاؤن کی آڑ میں مبینہ نسل کُشی کر رہا ہے۔
یورپی ملک نیدرلینڈز کے شہر دا ہیگ میں قائم انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں اس کیس کی دو روزہ سماعت 11 اور 12 جنوری کو ہوگی، جس میں دنیا بھر سے آئے ججز جنوبی افریقہ اور اسرائیل کے دلائل سنیں گے اور اپنا ابتدائی فیصلہ سنائیں گے۔
مقدمے میں جنوبی افریقہ نے عدالت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ عارضی یا قلیل مدتی اقدامات کرے جس میں اسرائیل کو غزہ میں اپنی فوجی مہم روکنے کا حکم دیا جائے، غزہ کو معاوضے کی پیشکش کی جائے اور تعمیر نو کے لیے فنڈز فراہم کیے جائیں۔
جنوبی افریقہ نے عالمی عدالت میں یہ کارروائی کیسے شروع کی؟
اس مقدمے کا مرکزی نکتہ 1948 کی اس کنونشن پر مبنی ہے جو نسل کُشی کے جرائم کی روک تھام اور سزا سے متعلق دوسری عالمی جنگ اور ہولوکاسٹ کے بعد تیار کیا گیا تھا۔
اس کنونشن کے مطابق ’کسی قومی، نسلی یا مذہبی گروہ کو مکمل طور پر یا جزوی طور پر تباہ کرنے کے ارادے سے قتل کا ارتکاب نسل کشی کے زمرے میں آتا ہے۔‘
جنوبی افریقہ اور اسرائیل نے 1948 میں اس کنونشن پر دستخط کیے تھے۔ جس کے آرٹیکل نو کے مطابق قوموں کے درمیان تنازعات کو اس کنونشن کے تحت عالمی عدالت انصاف میں پیش کیا جا سکتا ہے۔
اس لیے جنوبی افریقہ نے اپنی 84 صفحات پر مشتمل دائر کردہ درخواست میں کہا ہے کہ اسرائیل کے اقدامات مبینہ نسل کشی کے زمرے میں آتے ہیں کیونکہ اس کا مقصد غزہ میں فلسطینیوں کی آبادی کے ایک بڑے حصے کو تباہ کرنا ہے۔
جہاں فلسطین نے اس مقدمے کا خیر مقدم کیا ہے وہیں اسرائیل نے تمام الزامات کو سختی سے مسترد کر دیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کیا اس مقدمے سے غزہ میں جنگ رک سکتی ہے؟
اگر حال ہی کی مثال دیکھیں تو 2022 میں یورپی ملک یوکرین نے عالمی عدالت میں روس کے خلاف نسل کشی کا مقدمہ دائر کیا تھا، جس کے بعد روس کو فوری طور پر اپنے حملے کو معطل کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس اقوام متحدہ کی سب سے معتبر عدالت ہے اور اس کے احکامات قانونی طور پر ممالک کو پابند کرتے ہیں لیکن ہمیشہ ان پرعمل درآمد نہیں ہوتا۔
اسی وجہ سے روس نے عدالت کے حکم کو نظر انداز کیا اور یوکرین پر حملے جاری رکھے۔
ماضی کی مثالوں سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ ایسے مقدمات لمبے عرصے تک چل سکتے ہیں جبکہ ابتدائی فیصلے کے بعد عدالت پورے مقدمے پر غور کرنے کے طویل عمل کا آغاز کرتی ہے۔
اس کیس میں اسرائیل عدالتی دائرہ اختیار کو چیلنج کر سکتا ہے اور وہ 151 دوسرے ممالک جنہوں نے نسل کشی کے کنونشن پر دستخط کیے ہیں وہ بھی اپنی تجاویز پیش کرنے کے لیے عدالت کو درخواست دے سکتے ہیں۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔