اسرائیل کی غزہ پر جارحیت کے تین ماہ مکمل ہونے پر اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس نے شمالی غزہ میں حماس کی قیادت کو ’توڑ کر رکھ دیا‘ ہے تاہم اسرائیل کو خود بھاری عسکری و معاشی نقصان اور سفارتی سطح پر عالمی تنہائی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
عالمی جریدے بلومبرگ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق اسرائیل کی وزارت خارجہ نے کہا کہ جنگ کے باعث مالی اخراجات آٹھ ارب ڈالر سے بھی تجاوز کر جائیں گے۔
ان اخراجات میں اسرائیل کے شمالی اور جنوبی علاقوں سے ایک لاکھ سے زائد افراد کی نقل مکانی، پولیس کا بجٹ، سکیورٹی سروسز اور حماس کے حملے کے بعد تعمیراتی کام کا خرچ بھی شامل ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ امریکی امداد کے باوجود اسرائیل کو اضافی فنڈنگ کی ضرورت درپیش ہوگی جبکہ بھاری قرضوں سے نمٹنے کے لیے الگ رقم درکار ہوگی۔
سات اکتوبر کے حملے کے بعد سے جہاں 22 ہزار سے زائد فلسطینی جان سے گئے ہیں اور غزہ کی پٹی ملبے کا ڈھیر بن چکی ہے وہیں اسرائیل کو نہ صرف فوجیوں کا نقصان بلکہ سفارتی سطح پر بھی تنہائی کا سامنا ہے۔
اسرائیلی فوج کے ترجمان ریئر ایڈمرل ڈینیئل ہاگری نے غزہ پٹی میں شہریوں کی بڑھتی ہوئی اموات اور انسانی بحران پر بین الاقوامی دباؤ کا سامنا کرتے ہوئے حال ہی میں اپنی افواج کو کم کرنے کا اشارہ دیا ہے۔
ہاگری نے کہا کہ اسرائیلی افواج نے شمالی غزہ میں حماس گروپ کے ’فوجی فریم ورک‘ کو ختم کرنے کا کام مکمل کر لیا ہے اور اس علاقے میں تقریباً 8000 عسکریت پسندوں کو مار دیا گیا ہے۔
انہوں نے ایک آن لائن بریفنگ میں کہا، ’ہم اب (غزہ) پٹی کے وسط اور جنوب میں حماس کو ختم کرنے پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’لڑائی 2024 تک جاری رہے گی۔ ہم جنگ کے مقاصد کے حصول، شمال اور جنوب میں حماس کو ختم کرنے کے منصوبے کے مطابق کام کر رہے ہیں۔‘
دوسری جانب چند روز قبل اسرائیلی اخبار یدیوت اہرونوٹ سے وابستہ عسکری امور کے نامہ نگار یوسی یہوشوا نے کہا کہ اسرائیلی فوج نے اب تک 2300 فوجیوں کے زخمی ہونے کی اطلاع دی ہے جبکہ جنگ کے باعث معذور ہونے والے اسرائیلی فوجیوں کی تعداد 12 ہزار تک ہوسکتی ہے۔
لیکن اخبار کے مطابق یہ انتہائی محتاط تخمینہ ہے اور امکان ہے کہ غزہ پر جاری جنگ میں معذور اسرائیلی فوجیوں کی تعداد 20 ہزار تک ہو سکتی ہے۔
اسرائیل کی مالی مشکلات میں اضافے کا ایک اور باعث حوثی ملیشیا ہے جس کی طرف سے حملوں کے بعد تجارتہ بحری جہازوں کو طویل راستہ اختیار کرنا پڑ رہا ہے۔
بحیرہ احمر میں ایک بحری راستے آبنائے باب المندب میں حوثی ملیشیا نے حالیہ دنوں میں بڑی مال برداری کمپنیوں کے ان بحری جہازوں کو نشانہ بنایا جن کا تعلق اسرائیل سے تھا یا وہ اسرائیل سامان لے جا رہے تھے۔ ان حملوں کے بعد شپنگ کمپنیوں نے آمد و رفت کے اس اہم راستے کی بجائے متبادل راستہ اختیار کرنا شروع کر دیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایلات بندرگاہ کے سی ای او گیڈون گولبر نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ باب المندب کے بغیر ’ہم نے (ایلات بندرگاہ) پر کل سرگرمیوں کا 85 فیصد کھو دیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ اگر یہی صورت حال برقرار رہی تو ایلات بندرگاہ پر بحری سرگرمیاں ’صفر‘ ہو جائیں گی۔ اس صورت حال میں روزگار کے ذرائع میں بھی کمی ہو گی۔
اقتصادی امور کے ماہر اور اسلام آباد میں قائم ادارہ برائے پائیدار ترقی ’ایس ڈی پی آئی‘ کے جوائنٹ ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر وقار احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ابتدائی اندازوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اگر کمرشل تجارتی جہاز طویل بحری راستے پر سفر کریں گے تو ان کے لاجسٹک اخراجات میں 20 سے 22 فیصد اضافہ ہو گا۔‘
انہوں نے کہا کہ انشورنس فیس بھی بڑھ رہی ہے جبکہ تجارت کے لیے وقت بھی زیادہ صرف ہو گا۔ ’تو یہ اچھا خاصا معاشی نقصان ہے، نہ صرف اسرائیل کے لیے بلکہ دیگر ممالک کے لیے بھی، جو بحری تجارت کے لیے یہ راستہ اپناتے ہیں۔‘
بحری تجارتی سرگرمیوں پر نظر رکھنے والے پیلٹ فارم لویڈز لسٹ انٹیلی جنس کے انشورنس ایڈیٹر ڈیوڈ اوسلر کے مطابق بحیرہ احمر سے گزرنے والے جہازوں کے لیے انشورنس کی لاگت دوگنی ہو گئی ہے، جس سے جہازوں کے سفر میں لاکھوں ڈالر کا اضافہ ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیلی جہاز کے مالکان کے لیے یہ قیمتیں اس سے بھی زیادہ بڑھ گئی ہیں، تقریباً 250 فیصد تک۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کے امور کے سربراہ مارٹن گریفتس کا کہنا ہے کہ تین ماہ سے زائد جاری رہنے والے اسرائیلی فورسز کی بمباری کے بعد غزہ ’ناقابلِ رہائش‘ ہو چکا ہے۔
اسرائیل کو اس وقت سفارتی تنہائی کا بھی سامنا ہے کیونکہ دنیا بھر میں فلسطین میں اسرائیلی حملے کو روکنے کی حمایت میں مظاہرے جاری ہیں جبکہ اس کے طویل مدتی اتحادی امریکہ نے بھی اب اپنے موقف میں بظاہر نرمی برتنی شروع کر دی ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن اور یورپی یونین کے اعلیٰ سفارت کار جوزف بوریل اس خطے کے الگ الگ دوروں پر تھے تاکہ لبنان، اسرائیل کے زیر قبضہ مغربی کنارے اور بحیرہ احمر میں تین ماہ سے جاری جنگ کو پھیلنے سے روکا جا سکے۔
بلنکن ترکی اور یونان میں قیام کے بعد اردن کے شہر عمان میں تھے۔ بوریل پانچ سے سات جنوری کو لبنان کے دورے پر تھے۔ دونوں نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ان کی ترجیح لڑائی کو پھیلنے سے روکنا ہے۔
بلنکن نے سات اکتوبر کے بعد خطے کے اپنے چوتھے دورے پر یونان کے شہر چنیا سے اردن روانہ ہونے سے قبل نامہ نگاروں کو بتایا، ’ہم اس تنازع کو پھیلنے سے روکنے پر گہری توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔