دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ نے جمعرات کو کہا ہے کہ پاکستان فلسطینی عوام کے حق میں اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں جنوبی افریقہ کی درخواست کی حمایت کرتا ہے۔
جمعرات کو ہفتہ وار میڈیا بریفنگ کے دوران ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرا بلوچ نے کہا کہ ’پاکستان جنوبی افریقہ کی جانب سے غزہ کے فلسطینی عوام کے حق میں اسرائیل کو عالمی عدالت انصاف میں لے جانے کو سراہتا ہے، پاکستان اس حوالے سے جنوبی افریقہ کی حمایت کرتا ہے اور ہم جنوبی افریقہ کے اس قانونی عمل کو بروقت سمجھتے ہیں۔‘
جنوبی افریقہ نے 29 دسمبر 2023 کو انصاف کی عالمی عدالت میں اسرائیل کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا، جس میں مطالبہ کیا گیا کہ عدالت یہ واضح کرے کہ اسرائیل غزہ میں فلسطینی گروپ حماس کے خلاف کریک ڈاؤن کی آڑ میں مبینہ نسل کُشی کر رہا ہے۔
یورپی ملک نیدرلینڈز کے شہر دا ہیگ میں قائم عالمی عدالت انصاف میں اس کیس کی دو روزہ سماعت آج سے شروع ہو گئی ہے، جس میں دنیا بھر سے آئے ججز جنوبی افریقہ اور اسرائیل کے دلائل سنیں گے اور اپنا ابتدائی فیصلہ سنائیں گے۔
اس مقدمے میں جنوبی افریقہ نے عدالت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ عارضی یا قلیل مدتی اقدامات کرے جس میں اسرائیل کو غزہ میں اپنی فوجی مہم روکنے کا حکم دیا جائے، غزہ کو معاوضے کی پیشکش کی جائے اور تعمیر نو کے لیے فنڈز فراہم کیے جائیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دفتر خارجہ میں پریس بریفنگ کے دوران ترجمان ممتاز زہرا بلوچ سے سوال کیا گیا کہ کیا عالمی عدالت انصاف فلسطین کو انصاف دلانے میں کامیاب ہو گی؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ ’عالمی عدالت نے بین الاقوامی قوانین کے حوالے سے فیصلہ دینا ہے جبکہ اس فیصلے پر عمل درآمد کروانا اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی ذمہ داری ہے۔‘
بقول ممتاز زہرا بلوچ: ’اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل اس جنگ کو روکنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ پاکستان نے بارہا سکیورٹی کونسل پر زور دیا ہے کہ فلسطین پر جنگ بند کروائی جائے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم غزہ میں فوری جنگ بندی اور فلسطینیوں کے قتل عام کو رکوانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ہم فلسطین کے دو ریاستی حل پر یقین رکھتے ہیں۔‘
پریس بریفنگ کے دوران جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے حالیہ دورہ افغانستان سے متعلق سوال پر ترجمان دفتر خارجہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’پاکستان اور افغانستان کے درمیان بات چیت کے راستے کھلے ہیں، ہمارا سفارت خانہ بھی کام کر رہا ہے اور ان کا سفارت خانہ بھی پاکستان میں کام کر رہا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’افغانستان سے حال ہی میں سرکاری دورے بھی پاکستان میں ہوئے تو جب براہ راست رابطہ ہے تو ایسی صورت میں ہمیں پس پردہ رابطوں کی ضرورت نہیں ہے۔‘
بقول ترجمان دفتر خارجہ: ’مولانا فضل الرحمٰن نجی دورے پر افغانستان میں ہیں، ان کا دورہ افغانستان سرکاری دورہ نہیں ہے۔ ان کی خواہش پر انہیں دورے سے قبل دفتر خارجہ میں بریفنگ دی گئی جو کہ معمول کا عمل ہے۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’مولانا فضل الرحمٰن کا دورہ حکومت پاکستان کی ایما پر نہیں ہے۔ فضل الرحمٰن کی واپسی کے بعد اگر دفتر خارجہ کو ان کی افغانستان میں ملاقاتوں سے آگاہ کیا گیا تو تبصرہ کر سکیں گے۔‘
بریفنگ کے دوران انہوں نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے حوالے سے کہا کہ ’پاکستان کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات میں بالکل دلچسپی نہیں رکھتا، ٹی ٹی پی پاکستان میں بہت سے دہشت گرد حملوں میں ملوث ہے۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’ہمارے افغانستان سے مطالبات تبدیل نہیں ہوئے، ہم افغانستان میں ٹی ٹی پی سمیت دیگر دہشت گرد گروہوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے ہیں، ہم افغانستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کا خاتمہ چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ افغان سرزمین کے پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں استعمال کو روکا جائے۔‘
ایک سوال کے جواب میں ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ ’انڈیا نے عالمی کرکٹ کپ جیسے آئی سی سی سپانسرڈ ایونٹ کے لیے پاکستانیوں کو ویزے جاری نہیں کیے، یہ عمل انتہائی بدقسمتی کا مظہر ہے۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔