پاکستان پر ایرانی حملوں کو سمجھنا فی الحال مشکل ہے

ایران کی جانب سے گذشتہ چند روز کے دوران پاکستان کے علاوہ عراق اور شام پر حملے ہوئے، جو ایران کی اندرونی صورت حال کے تناظر میں حیران کن ہیں۔

25 فروری 2020 کو تفتان میں پاکستان اور ایران کی سرحد پر پاکستانی اور ایرانی پرچم لہرا رہے ہیں (بنارس خان / اے ایف پی)

ایران کے بلااشتعال حملے کا جواب دے دیا گیا ہے اور اس میں پاکستان کے پاس دوسرا کوئی آپشن نہیں تھا۔ اس وقت یہ سمجھنا مشکل ہے کہ ایران نے ایسی حرکت کیوں کی، جبکہ تہران کو پورے خطے میں خطروں کا سامنا ہے۔

حملے سے ایک دن قبل پاکستان کے نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اور ایرانی وزیر خارجہ حسین امیرعبداللہیان کی ملاقات بھی ہوئی تھی اور دونوں ممالک کی بحری افواج مشقیں بھی کر رہی تھیں۔

کچھ روز قبل ایران نے شام اور عراق پر بھی میزائل ڈرون حملے کیے تھے، جس کے بعد بغداد نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں شکایت درج کی۔ عراقی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ ایران اپنے اندرونی مسائل سے اپنے عوام کی توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہا ہے۔

اس میں یقیناً کچھ سچ ضرور ہے۔ گذشتہ کئی سالوں کے دوران ایران میں بہت بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے ہیں اور وہاں کے عوام حمکرانوں سے پوچھ رہے ہیں کہ ان کی خارجہ پالیسی سے، جس کا ایک اہم ستون عسکریت پسندوں کا استعمال ہے، ایرانی عوام کو کیا فائدہ ہوا ہے۔

شاید ایران کے حکمرانوں کی سوچ یہ ہے کہ ہر پڑوسی کے ساتھ لڑائی کر کے وہ عوام کو متحد کر دیں گے۔

حال ہی میں ایران میں بہت بڑے دہشت گرد حملے بھی ہوئے ہیں۔ کرمان میں ایرانی پاسداران انقلاب کے کمانڈر قاسم سلیمانی کی برسی کی تقریب کے دوران حملے کی ذمہ داری داعش خراسان نے قبول کی تھی۔ اسی طرح ایران کے جوہری سائنس دان کو اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے ایرانی سرزمین پر قتل بھی کیا تھا، لیکن چونکہ ایران میں اتنا دم نہیں کہ وہ اسرائیل کو نشانہ بنائے، وہ اپنے پڑوسیوں پر چڑھائی کر رہا ہے۔

حیران کن بات یہ ہے کہ کچھ پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ بہتر ہوتا اگر پاکستان اس حملے کو نظر انداز کر دیتا، لیکن شاید انہیں یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ ایران نے پہل کی تھی اور اگر پاکستان نے جواب نہ دیا ہوتا تو اس کا مطلب ہوتا کہ کوئی بھی ہمارے ملک کی حدود میں داخل ہو کر حملے کر سکتا ہے۔

یہ سچ ہے کہ جیش العدل پاکستان اور ایران کی سرحدوں پر سرگرم ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ماضی اور حال دونوں میں پاکستان نے ایران کے ساتھ تعاون بھی کیا ہے۔ جنداللہ کے سربراہ عبدالمالک رِیگی کو پکڑنے میں پاکستان نے ایران کی مدد کی تھی۔

لیکن افسوس کی بات ہے کہ ایران کی طرف سے کوئی تعاون نہیں ہوا بلکہ اس کے برعکس ایران نے پاکستان مخالف قوتوں کو پناہ اور مدد فراہم کی ہے۔

انڈین جاسوس کلبھوشن یادو کا نام ہم سب جانتے ہیں لیکن اس کے علاوہ بھی اور بہت کچھ ہوا ہے، جس پر بہت کم لوگوں کی نظر ہے۔

ہمارے حکام جب کسی ہمسایہ ملک کی جانب سے پاکستان میں ’دہشت گردی کی سرپرستی‘ کا الزام لگاتے ہیں تو ان کا اشارہ اکثر انڈیا یا شاید افغانستان کی جانب ہوتا ہے لیکن شاذ و نادر ہی انگلیاں پاکستان کے جنوب مغربی پڑوسی ایران کی طرف اٹھتی ہیں، لیکن اب صورت حال بدل رہی ہے۔

گذشتہ سال 12 مئی کو کراچی کے علاقے صدر میں ایک دھماکہ ہوا، جس میں ایک شخص مارا گیا اور متعدد زخمی ہوئے۔ اس حملے کی ذمہ داری فوری طور پر’سندھو دیش‘ نامی تنظیم نے قبول کی تھی۔ یہ ایک علیحدگی پسند تنظیم ہے جو بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) اور بلوچستان ریولوشنری آرمی (بی آر اے) جیسی کالعدم شدت پسند تنظیموں کی طرز پر وجود میں آئی تھی۔

اس تنظیم پر مئی 2020 میں سندھودیش لبریشن آرمی (ایس ایل اے) اور ’جئے سندھ قومی محاذ‘ کے ساتھ پابندی عائد کی گئی تھی، جسے صوبہ سندھ میں پنجابیوں اور پشتونوں کی ٹارگٹ کلنگ کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ اسی تنظیم نے نومبر 2021 میں ضلع قمبر شداد کوٹ سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی رہنما رانا سخاوت راجپوت کے قتل کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی۔

اپنے پیغام میں ایس آر اے نے ماضی میں بلوچستان لبریشن آرمی کی جانب سے استعمال کی گئی مہلک حکمت عملی کی طرز پر صوبے میں تمام آباد کاروں کو سندھ چھوڑنے کے لیے انتباہ جاری کیا تھا۔

دھماکے کے بعد حکام نے ایس آر اے کے تین عسکریت پسندوں کا تعاقب کیا جن کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہ ان حملوں کے ذمہ دار تھے۔ فورسز سے مقابلے میں دو شدت پسند مارے گئے جن میں سے ایک اللہ ڈنو بھی تھا، جس کے بارے میں حکام کا دعویٰ ہے کہ وہ بم بنانے کا ماہر تھا اور اس نے کراچی کے علاقے صدر میں ہونے والے حملے میں استعمال ہونے والا بم بھی تیار کیا تھا۔

محکمہ انسداد دہشت گردی کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ وہ ریل گاڑی کی پٹریوں اور بجلی کے کھمبوں پر ہونے والے بم دھماکوں میں بھی ملوث تھا۔

محکمہ انسداد دہشت گردی کے ڈی آئی جی نے کہا کہ اگرچہ انہیں شبہ ہے کہ اس دہشت گرد گروہ کی تربیت اور مالی معاونت انڈین ایجنسی ’را‘ سے ہوتی ہے اور ان کے رہنما اور اڈے ایران میں موجود تھے، جیسا کہ ایس آر اے کے (ایران میں موجود) رہنما سید اصغر شاہ کا اس آپریشن کے دوران مبینہ طور پر اللہ ڈنو سے رابطہ تھا۔

ایران کا یہ نام اگر بطور سپانسر نہیں تو کم از کم پاکستان مخالف دہشت گرد گروپوں کی میزبانی کے حوالے سے اس وقت تک لیا جاتا رہا ہے جب اپریل 2019 میں اورماڑہ کے قریب بلوچستان کوسٹل ہائی وے پر ایک حملے میں 14 افراد مارے گئے۔ اس حملے کی ذمہ داری تین بلوچ علیحدگی پسند گروپوں کے اتحاد کے تحت قائم ہونے والی تنظیم بی آر اے ایس نے قبول کی تھی۔

اس حملے کے بعد اس وقت کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کھل کر کہا تھا کہ ان تنظیموں کے تربیتی اور لاجسٹک کیمپ ایران میں موجود ہیں۔

شاہ محمود قریشی نے یہ بھی کہا کہ ایران میں موجود ان کیمپوں کے مقام کی نشاندہی کی گئی ہے اور ایران سے سختی سے ان کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک ماہ سے بھی کم عرصے بعد ایران نے بھی پاکستان پر جیش العدل کے خلاف ’کارروائی نہ کرنے‘ کا الزام لگایا۔

جیش العدل ایک عسکریت پسند تنظیم ہے، جس نے اسی مہینے 10 ایرانی سرحدی محافظوں کو مارنے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

شاہ محمود قریشی کا یہ بیان ممکنہ طور پر پہلی بار تھا جب اعلیٰ ترین سطح کے کسی پاکستانی عہدیدار نے ایران پر براہ راست الزام لگایا ہو کیونکہ اس سے قبل اس طرح کے مطالبات بالواسطہ طور پر کیے جاتے تھے جیسا کہ 2006 میں جب ’ذرائع‘ کے ذریعے یہ رپورٹس سامنے آئی تھیں کہ پاکستان نے زاہدان میں انڈین قونصل خانے کے پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہونے کے بارے میں ایران کو اپنے تحفظات سے آگاہ کیا تھا۔

یہاں تک کہ جب کلبھوشن یادو کے ’دہشت گرد نیٹ ورک‘ کا انکشاف ہوا، تب بھی پاکستانی حکام محتاط رہے کہ ایران پر براہ راست الزام نہ لگائیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کے بعد رواں سال جنوری میں بلوچ لبریشن فرنٹ کے عسکریت پسندوں نے جدید ترین ہتھیاروں جیسے کہ نائٹ ویژن سے لیس ہو کر پاکستان ایران سرحد پار کی اور کیچ میں ایک چوکی پر دس پاکستانی فوجیوں کو قتل کر ڈالا۔

ایک بار پھر ایران پر انگلیاں اٹھائی گئیں کہ بی ایل ایف آزادی کے ساتھ ان کی سرزمین سے سرگرمیاں کر رہی ہے۔

کیچ حملے کے صرف تین دن بعد ایک اور انکشاف میں وفاقی تحقیقاتی ایجنسی نے منی لانڈرنگ کے ایک نیٹ ورک کا پردہ فاش کیا جو مبینہ طور پر ’بھاری رقم‘ ایران کو منتقلی میں ملوث تھا جس کے ایک وصول کنندہ کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ ایرانی سپریم لیڈر علی خامنہ ای کے پاکستان میں سابق نمائندے ابوالفضل بہاء الدینی تھے۔

پاکستانی حکام اس نہج تک کیسے پہنچے؟ کراچی میں ایران کی سرپرستی میں چلنے والی زینبیون بریگیڈ کے دو ارکان کی گرفتاری اور تفتیش کے بعد تحقیقات کا آغاز ہوا۔ سی ٹی ڈی اہلکار عمر شاہد حامد کے مطابق دونوں نے ایران میں تربیت حاصل کی تھی اور تفتیش کے مطابق وہ کراچی میں دو علما یوسف لدھیانوی اور نظام الدین شامزئی کے قتل کی وارداتوں میں ملوث تھے۔

زینبیون بریگیڈ پاکستانیوں پر مشتمل ایک ملیشیا ہے جسے ایران کے پاسداران انقلاب اور قدس فورس کی جانب سے اسلحہ اور تربیت دی جاتی ہے۔ اس ملیشیا کی تعداد کا تخمینہ دو سے پانچ ہزار کے درمیان ہے۔

بعض اوقات فاطمیون بریگیڈ (جو افغانوں پر مشتمل ہے) کے ساتھ مل کر کام کرتے ہوئے اس ملیشیا کو شام میں لڑتے دیکھا گیا ہے اور شاید عراق میں بھی، جہاں اس نے بشار الاسد کی افواج کے ساتھ مل کر لڑا ہے اور یہ اکثر داعش کے ساتھ بھی جھڑپوں میں ملوث رہی ہے۔

ان جنگوں کے خاتمے کے بعد یہ خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ اس ملیشیا کو دوسرے مقاصد کے لیے پاکستان میں دوبارہ تعینات کیا جا سکتا ہے۔ کیا یہ اسلام آباد کے لیے خطرے کی گھنٹی ہو سکتی ہے؟ شاید ہاں۔

لیکن ایران میں سرگرم گروہوں کے بڑھتے حملوں اور ایران سے تعلق رکھنے والے افراد کی گرفتاریوں کا سلسلہ پریشان کن ہے اور فرقہ وارانہ ملیشیا کو کم لاگت پاور پروجیکشن ٹول کے طور پر استعمال کرنے کی مجموعی حکمت عملی پورے مشرق وسطیٰ میں ایک واضح ایرانی پالیسی ہے۔

لیکن یہاں ایرانی حکومت آگ سے کھیل رہی ہے۔ یہ درست ہے کہ جب پاکستانی پالیسی ساز ایران کے حوالے سے حکمت عملی پر غور کرتے ہیں تو ان کے ذہنوں میں داخلی ردعمل کا خوف بہت زیادہ ہوتا ہے۔

یہ بھی سچ ہے کہ پاکستان کی سکیورٹی فورسز دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے بہت زیادہ دباؤ میں ہیں، لیکن صبر کی بھی حد ہوتی ہے اور یہ خطے کے لیے بہتر ہو گا اگر یہ نئی پراکسی جنگ شروع ہونے سے پہلے ختم ہو جائے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر