پاکستان - ایران کشیدگی، دنیا کدھر جا رہی ہے؟

عسکری طریقے سے ایران مخالف شدت پسندوں کا خاتمہ کرنے کے لیے تہران نے اب ایک اچھے دوست اور ہمسائے پاکستان کو بھی دشمن بنا لیا ہے۔

ایران کے وزیر خارجہ اور پاکستان کے نگراں وزیر اعظم نے منگل کو ہی ڈیووس اجلاس کے موقع پر ملاقات اور مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا (ارنا)

دنیا بدقسمتی سے ایسے دور سے گزر رہی ہے جہاں بہت سے ریاستیں اپنے ممالک سے باہر مقیم ان شدت پسندوں کے خلاف کارروائیوں کا حق جتلا رہی ہیں جو وطن سے باہر  رہتے ہوئے بھی اپنے ہی ممالک کے خلاف سرگرم ہیں۔ یہ صورت حال نے ناصرف دنیا کو منقسم بلکہ عدم استحکام کی جانب دھکیل رہی ہے۔

اپنے دشمنوں کے خلاف یک طرفہ کارروائیوں کی داغ بیل حالیہ وقتوں میں امریکہ اور اسرائیل نے ہی ڈالی جو بڑی ڈھٹائی سے اس حق کا دفاع بھی کرتے آئے ہیں۔ چاہے افغانستان ہو یا غزہ کسی ملک یا علاقے کی سرحد اور خودمختاری ان کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی۔ دوسری جانب شدت پسند بھی ممالک کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھانے میں ماہر ہوگئے ہیں۔

اس سلسلے میں ایک نیا محاذ ایران اور پاکستان کے درمیان کھل گیا ہے۔ ایران نے مغربی دنیا خصوصاً امریکہ کو دکھانے کے لیے کہ وہ اپنے خلاف کسی خطرے کو برداشت نہیں کرے گا بین القوامی قوانین کو پس پشت پر رکھتے ہوئے پہلے عراق اور شام اور پھر پاکستان پر چڑھ دوڑا ہے۔ عالمی سطح پر پہلے ہی تنہا ایران کے لیے ایسی کارروائیاں آگے چل کر کوئی اچھا فیصلہ ثابت نہیں ہوگا اور اس کی آئسولیشن مزید بڑھے گی۔

ایران مخالف شدت پسندوں کا خاتمہ کرنے کے لیے عسکری طاقت کے استعمال کی راہ اختیار کر کے تہران نے اب ایک اچھے دوست اور ہمسائے پاکستان کو بھی دشمن بنا لیا ہے۔ ایران پر عالمی پابندیوں کے باوجود اسلام آباد تہران سے اقتصادی سرگرمیوں اور تجارت کے ذریعے پڑوسی ملک کی مدد کر رہا تھا۔

ایرانی پیٹرول کی پاکستان میں سمگلنگ پر ناصرف اسلام آباد بلکہ امریکہ کو بھی شدید تحفظات ہیں۔ امریکہ کو یقین ہے کہ ایران عالمی پابندیوں کے باوجود ایندھن کی خریدوفروخت سے جو رقم کما رہا ہے اسے وہ یمن اور عراق سمیت کئی ممالک میں عسکریت پسندوں کی مدد کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ چین بھی ایران سے تیل کے خریداروں میں ایک بڑا خریدار ہے۔

یہ پاکستان ہی تھا جس نے ایران کی سعودی عرب کے ساتھ کشیدگی میں کمی لانے کی متعدد کوششیں کیں۔ یہ زیادہ کامیاب ثابت نہیں ہوئیں لیکن اس سے پاکستان کی نیک نیتی ظاہر ہوتی ہے۔  

پاکستان کی ایران کے ساتھ تقریباً ایک ہزار کلومیٹر طویل مشترکہ سرحد حالیہ کارروائی سے سیکورٹی اعتبار سے مستحکم نہیں بلکہ غیرمستحکم ہوگئی ہے۔ دونوں ممالک کو چاہیے کہ وہ  سرحدوں کی سلامتی پر سنجیدگی کے ساتھ توجہ دیں اور اس میں خلل پیدا کرنے والے گروہوں کے خلاف یک طرفہ نہیں بلکہ مشترکہ کارروائیاں کریں۔

دونوں مسلم ہمسایہ ممالک کو ایک دوسرے سے شکایت ہے کہ وہ سرحدی سلامتی کو یقینی نہیں بنا رہے ہیں۔ اسی قسم کے صورت حال پاکستان کو افغانستان کے ساتھ طویل عرصے سے دوچار ہے۔ افغان طالبان کے اقتدار میں آنے سے بھی کچھ نہیں بدلا۔ پاکستان کی جانب سے سرحد پار ایک آدھ حملے کی اطلاعات بھی تھیں لیکن ان کی کبھی سرکاری سطح پر تصدیق نہیں ہوئی۔ لیکن ایران میں کارروائی کر کے پاکستان نے کسی ہمسایہ ملک میں پہلی باضابطہ اعلان شدہ فوجی کارروائی کا اعزاز اس ملک کے نام کر دیا ہے۔

پاکستان اپنے بڑے شہروں جیسے کہ کراچی اور بلوچستان کے کئی علاقوں میں تسلسل سے جاری حملوں میں ملوث ان عسکریت پسندوں کے خلاف ایران سے مطالبہ کرتا رہا ہے جن کی پناہ گاہیں اور اڈے پڑوسی ملک میں ہیں۔ دوسری جانب ایران بھی بعض ایران مخالف شدت پسند تنظیموں کی بلوچستان میں موجودگی اور ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔ شکایات تو دونوں کو تھیں لیکن کسی حد تک تعاون بھی جاری تھا۔ یہ پاکستان ہی تھا جس نے جنداللہ کے رہنما عبدالمالک ریگی کی گرفتاری میں مدد کی تھی۔ پاکستان کی معلومات کی بنیاد پر اسے دوبئی سے کرغستان جانے والی ایک فلائٹ پر سے اتار کر پکڑا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جیش العدل نے 17 جنوری کو ایک بیان میں ان کے اڈوں پر ڈرون اور میزائل حملے کی تصدیق کی ہے تاہم کہا کہ ان کے خاندان کے لوگوں کو نشانہ بنایا گیا۔

پاکستانی اور ایرانی سکیورٹی فورسز کی صلاحیت کے پیش نظر ایسا نہیں لگتا کہ دونوں ملکوں کے لیے اپنے سرحدی علاقوں میں شدت پسند تنظیموں کے خلاف کارروائیاں کرنا زیادہ سخت اور پیچیدہ کام ہوگا۔ لیکن دونوں ممالک کے سرحدی، سکیورٹی اور پولیس کے اعلی عہدیداروں کی ملاقاتوں کے نتیجے میں دہشت گردی کے خلاف مشترکہ مہم اور سرحدوں پر سکیورٹی بڑھانے کے لیے مشترکہ کوششوں کے کئی معاہدوں کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ فریقین نے ان پر سنجیدگی کے ساتھ عمل نہیں کیا ہے۔

ایران کی جانب سے اس موقع پر پاکستان کے ساتھ کشیدگی بڑھانے کی وجہ واضح نہیں لیکن شاید وہ مغربی دنیا کو اپنے ہمسایوں کے ذریعے یہ پیغام دینا چاہتا تھا کہ وہ کسی قسم کا دباؤ برداشت نہیں کرے گا۔ چاہے ان حملوں سے دوست ناراض ہوں تو ہوں، بڑے دشمن کو پیغام دینا ضروری ہے۔

غزہ میں تین ماہ سے زیادہ عرصے سے جاری اسرائیلی بربریت پر دنیا کو لگتا ہے کہ آہستہ آہستہ ایک بڑی جنگ کی جانب دھکیل رہی ہے۔ بحرہ احمر میں بھی آگ لگی ہوئی ہے اور امریکہ نے چوتھی بار حوثی ملیشیا پر حملے کیے ہیں۔ امریکہ، برطانیہ اور دیگر مغربی حامی ممالک اسرائیل کو نا تو جنگی جنون سے نہیں روک پا رہے ہیں اور نا ہی عالمی عسکری حدت کو قابل قبول سطح پر رکھنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہے ہیں۔

لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ کئی عالمی عناصر یہی چاہتے تھے جو اس وقت پاک ایران سرحد پر ہو رہا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ یہ دو مسلمان ممالک بھی گتھم گتھا ہو جائیں تاکہ ان کی معیشتیں اور معاشرے انتشار کا شکار رہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان اس قسم کی کشیدگی سے نمٹنے کے طریقہ کار موجود ہیں انہیں بروکار لانے کی ضرورت ہے۔ مزید جنگی جنون اس خطے کے عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ کرسکتا ہے۔

چین جس کی پاکستان اور ایران دونوں بات اگر مانتے نہیں تو سنتے ضرور ہیں ثالثی کا اس وقت کردار ادا کرسکتا ہے۔ اس کے ایران اور خاص طور پر پاکستان کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔ تاہم پاکستان کی وزارت خارجہ نے ابھی کسی ملک کی جانب سے ثالثی کی کوشش کی اطلاع نہیں دی ہے۔

نوٹ: یہ تحریر مصنف کی رائے پر مبنی ہے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر