گزشتہ کئی روز سے بھارت میں کرونا وائرس کے علاوہ جو موضوع سب سے زیادہ زیر بحث ہے وہ ہے پانچ اگست۔ یعنی آج کے دن ایودھیا شہر میں رام مندر کی تعمیر کے لیے ہونے والا بھومی پوجن۔
حکومت کی طرف سےبھی خاص انتظامات کیے جا رہے ہیں اور ایسا مانا جا رہا ہے کہ ہندوستانی تاریخ اور سیاست میں یہ دن ایک اہم مقام رکھتا ہے۔
ریاست اتر پردیش کے ایودھیا شہر میں آج منعقد ہونے والا پروگرام اس لیے بھی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے کیونکہ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی بذات خود اس میں شریک ہونے والے ہیں جس کی بعض سیاسی حلقوں میں مخالفت بھی ہو رہی ہے۔
بھومی پوجن میں وزیراعظم مودی کی شرکت کی مخالفت
حیدر آباد کے ممبر پارلیمنٹ اور آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے صدر اسد الدین اویسی نے بھومی پوجن کی تقریب میں وزیراعظم نریندر مودی کی شرکت پر اعتراض کرتے ہوئے اسے بھارتی آئین کی کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
اویسی نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ 'وزیراعظم کا سرکاری طور سے بھومی پوجن پروگرام میں شرکت کرنا ان کے آئینی طورسے حلف برداری کی خلاف ورزی ہوگی۔ سیکولرزم آئین کے بنیادی ڈھانچے کا حصہ ہے۔'
انہوں نے یہ بھی کہا کہ 'ہم اس بات کو نہیں بھول سکتے ہیں کہ بابری مسجد ایودھیا میں چار سو برس تک کھڑی تھی اور جس کو 1992میں ایک کرمنل ماب نے منہدم کر دیا تھا۔'
اویسی کے علاوہ کانگریس پارٹی کے سینیئر لیڈر اور ممبر پارلیمنٹ دگ وجے سنگھ بھومی پوجن کے وقت کے سلسلے میں اعتراض کرچکے ہیں۔
ساتھ ہی اتر پردیش پولیس کے سابق انسپکٹر جنرل اور آل انڈیا پیپلز فورم کے قومی ترجمان ایس آر داراپوری نے بھی وزیر اعظم کی شرکت کو بھارتی آئین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس تقریب کے لیے جس طرح سے سرکاری خزانے اور عملے کا استعمال ہو رہا ہے اس پر بھی روک لگنی چاہئے۔
واضح ہو کہ گزشتہ سال نومبر کے مہینے میں ایودھیا میں مندر کی تعمیر کا راستہ اس وقت صاف ہو گیا تھا جب سپریم کورٹ نے بابری مسجد - رام مندر متنازع اراضی ملکیت معاملے میں اپنا فیصلہ رام مندر کے حق میں سنایا تھا۔
تاہم کورٹ نے اپنے فیصلے میں بابری مسجد کے بدلے میں ایودھیا میں ہی پانچ ایکڑ زمین فراہم کرنے کا بھی حکم دیا تھا۔
قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ کورٹ نے اپنے فیصلے میں مسجد کو منہدم کرنے کی کارروائی اور اس سے قبل اس کے اندر مورتی رکھنے کے عمل کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔
مسجد انہدام کیس: 28 سال بعد بھی انصاف کی امید نہیں
یہی نہیں اپریل 2017 میں مسجد انہدام کیس کی شنوائی کرتے ہوئے عدالت عظمی نے کہا تھا کہ بابری مسجد کا انہدام ایک ایسا جرم ہے جس نے بھارت کے سیکولر تانے بانے کو تار تار کر دیا ۔ کورٹ نے معاملے کی روزانہ شنوائی کا حکم دیتے ہوئے سی بی آئی عدالت سے دو سال کے اندر اس کا ٖفیصلہ سنانے کی بات کہی تھی۔
لیکن آج تین سال سے بھی زیادہ وقت گزرنے کے بعد بھی اس ضمن میں کوئی خاص پیش رفت نظر نہیں آئی۔ ماہرین کے مطابق اب اس معاملے میں انصاف کی امید بے معنی معلوم ہوتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
'دی ڈیمالیشن : انڈیا ایٹ دی کراس روڈز' کے مصنف اور سینئر صحافی نیلانجن مکھوپادھیائے نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 'باوجود اس کے کہ مسجد کو دن دہاڑے ، ایک منظم سازش کے تحت مسمار کیا گیا، جن لوگوں نے مسجد کو مسمار کیا ان لوگوں نے اس کا باضابطہ جشن منایا ، اس کی بنیاد پر اپنی سیاست چمکائی لیکن 28 سال گزرنے کے بعد بھی ان کو سزا نہیں ملی ۔ مجھے نہیں لگتا کہ اس معاملے میں اب انصاف کی کوئی خاص امید کی جا سکتی ہے۔'
دلچسپ بات ہے کہ گزشتہ دنوں اس کیس کی شنوائی کے دوران مسجد کے انہدام میں کلیدی کردار ادا کرنے والے کچھ لوگوں نے، جنہیں اپنے اس عمل پر فخر بھی تھا اور جو جشن میں شریک بھی ہوتے رہے ہیں، کورٹ کے سامنے اپنے بے گناہ ہونے اور اس معاملے سے کوئی تعلق نہ ہونے کا دعویٰ پیش کیا۔
کورٹ ریکارڈز کے مطابق اس معاملے میں 32 ہائی پروفائل ملزمان ہیں جن میں بھارت کے سابق نائب وزیراعظم اور وزیر داخلہ لال کرشن ایڈوانی، اتر پردیش کے سابق وزیراعلیٰ اور حال تک راجستھان کے گورنر کلیان سنگھ سمیت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور سنگھ پریوار کے درجن بھر سے زائد دیگر سینئر لیڈران اور سابق مرکزی اور ریاستی وزرا شامل ہیں۔
بابری مسجد کے انہدام کے وقت ریاست میں بی جے پی کی حکومت تھی اور اس وقت کے وزیراعلیٰ کلیان سنگھ نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ انہیں چھ دسمبر (کو جو کچھ ہوااس ) کا کوئی افسوس نہیں ہے۔ وہ چار اگست کو ہی ایودھیا پہنچ جائیں گے۔
انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ کرونا کا رونا روکر بھومی پوجن کو روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو کامیاب نہیں ہوگی اورفلک بوس مندر کی تعمیر ہو کر رہےگی۔
مسجد کی تعمیر کے لیے ابھی تک کوئی لائحہ عمل نہیں
جہاں ایک جانب مندر کی تعمیر کے لیے زورو شور سے کام جاری ہے وہیں مسجد کی تعمیر کے تئیں کوئی خاص پیش رفت نظر نہیں آئی ہے۔
اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ مسجد کی تعمیر کے لیے ٹرسٹ کی تشکیل گزشتہ بدھ کو ہوئی ہے۔ جب کہ مندر کی تعمیر کے لیے ٹرسٹ کا قیام فروری کے اوائل میں ہی عمل میں آ گیا تھا۔
مسجد ٹرسٹ کی تشکیل سنی وقف بورڈ نے کی ہے اور فی الوقت اس میں نو ممبران ہیں اور آنے والے وقت میں چھ مزید ممبران شامل کیے جا سکیں گے۔
اتر پردیش سینٹرل سنی وقف بورڈ کےچیئرمین ظفر فاروقی، جو کہ ٹرسٹ کے صدر یا چیف ٹرسٹی بھی ہیں، کے اعلان کے مطابق ٹرسٹ کا نام 'انڈو اسلامک کلچرل فاؤنڈیشن' رکھا گیا ہے اور اس کے تحت مسجد کے علاوہ ایک کلچرل سینٹر ، ریسرچ سینٹر، ہسپتال اور لائبریری بھی قائم کیے جائیں گے۔
واضح ہو کہ اسی سال چوبیس فروری کو وقف بورڈ نے حکومت کی جانب سے دی جانے والی پانچ ایکڑ اراضی کو قبول کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
یہ زمین اجودھیا کی سوہاول تحصیل کے دھنی پورگاؤں میں ہے جو کہ اُس جگہ سے جہاں بابری مسجد ہوا کرتی تھی تقریباً 25 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔
تاہم ٹرسٹ کے سیکریٹری اور ترجمان اطہر حسین نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ 'مسجد کی تعمیر میں کتنا وقت لگے گا اور اس کے لیے کیا لائحہ عمل ہے، یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا کیونکہ اس سلسلے میں ہماری ابھی کوئی میٹنگ نہیں ہو پائی ہے، اس میٹنگ کے بعد ہی کچھ کہا جا سکتا ہے۔'
یہ پوچھے جانے پر کہ ٹرسٹ کی تشکیل اور زمین کا قبضہ حاصل کرنے میں اتنا وقت کیوں لگا، ان کا کہنا تھا کہ یہ تاخیر وبا کی وجہ سے ہوئی۔
غور طلب بات یہ ہے کہ ابھی تک جن لوگوں کو مسجد ٹرسٹ کا ممبر بنایا گیا ہے ان میں بابری مسجد - رام جنم بھومی معاملے کے دوسرے اہم مسلم فریقین میں سے کسی کو شامل نہیں کیا گیا ہے اور ٹرسٹ کی تشکیل سے پہلے ان کی کوئی رائے بھی نہیں لی گئی۔
ساتھ ہی تا حال ایودھیا کے کسی مقامی شخص کو بھی اس کا حصہ نہیں بنایا گیا ہے۔ دریں اثنا مسجد کے لیے جہاں زمین ملی ہے وہاں کے مقامی لوگوں میں اس کے تئیں کوئی خاص جوش و خروش نہیں دیکھا جا رہا ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اصل میں مقامی لوگوں کو کبھی بھی اس تنازع میں زیادہ دلچسپی نہیں رہی ہے۔
ریسرچر اور صحافی ولَے سنگھ، جو ایک عرصے سے ایودھیا کی تاریخ اور سماج کا مطالعہ کر رہے ہیں، کا کہنا ہے کہ 'دراصل مقامی لوگوں سے زیادہ یہ موضوع باہر کے لوگوں کے لیے اہم رہا ہے اور انہوں ہی اس پر سیاست بھی کی ہے۔'
انہوں نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ گرچہ یہ شہر تاریخی حیثیت رکھتا ہے لیکن جس طرح سے اس کو 'ویٹی کن آف ہندوز' کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اس کی کوئی تاریخی حیثیت نہیں ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر وزیر اعظم مودی اس بھومی پوجن کی تقریب میں شریک ہوتے ہیں تو ان سے اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ اس سے سماج میں مزید نفرت نہ پھیلے اور ہندو اور مسلمان کے درمیان تفریق میں اور اضافہ نہ ہو۔
ان کے مطابق اگر وبا کا ماحول نہیں ہوتا تو یہ تقریب بہت بڑے پیمانے پر منعقد کی جاتی اور اس سے ماحول اور بھی خراب ہو سکتا تھا۔
ایودھیا کے بارے میں ایک قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ بابری مسجد کے انہدام کے بعد جب ملک کے مختلف حصوں میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے اور ہزاروں لوگوں کی جانیں گئیں تب بھی یہاں مقامی لوگوں میں کوئی آپسی فساد نہیں ہوا تھا۔
تاہم کچھ باہری لوگوں کی وجہ سے جو کہ مسجد کے انہدام میں بھی شریک تھے کچھ افراد کی جانیں گئیں تھی۔
وبا کے باوجود بھومی پوجن کیوں ؟
ایسے وقت میں جب کہ ملک میں کرونا وائرس کی وبا پر قابو پانا حکومت کے لیے مشکل ہو رہا ہے، دن بہ دن کرونا متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، حکومت کیوں ایک ایسی تقریب میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی جس سے عام شہریوں کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہونے والا؟
اس سوال کے جواب میں نیلانجن مکھوپادھیائے کہتے ہیں ، 'جب جب بحرانی صورتحال ہوتی ہے یہ ایودھیا کا رخ کرتے ہیں ۔ یہ بی جے پی کا 'گو ٹو' ایشو بن گیا ہے ۔ اس وقت کا بحران یہ ہے کہ وبا پر قابو نہیں پایا جا رہا، بھارت چین کشیدگی کا کوئی حل نظر نہیں آ رہا ہے اور کشمیر کے حالات بہتر ہونے بجائے دن بہ دن بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسے میں انہیں لگتا ہے کہ وہ ایسا کر کے اپنے حق میں ماحول سازگار کر لیں گے،جو بہت حد تک صحیح بھی معلوم ہوتا ہے۔'
ان کے مطابق یہ پہلا موقعہ نہیں ہے جب بی جے پی اور سنگھ پریوار ایسا کر رہی ہے۔ وہ ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ '2001 میں ملک پارلیمنٹ پردہشت گردانہ حملے اور 2001کے آخر اور 2002کے اوائل میں پاکستان اور بھارت کے درمیان زبردست کشیدگی کے فوراً بعد وشوا ہندو پریشد(وی ایچ پی) نے ملک بھر سے کار سیوکوں کو ایودھیا میں اکٹھا کرنا شروع کر دیا تھا ۔اور اسی کار سیوا سے لوٹ رہے کار سیوکوں والی ٹرین کی بوگی پر گجرات کے شہر گودھرا میں حملہ ہوا تھا جس کے بعد اس ریاست میں مسلم مخالف فسادات ہوئے تھے ۔'
ان کے مطابق، بی جے پی اور ان کی ہم خیال تنظیمیں یہ چاہتی ہیں کہ ملک میں کانفلکٹ کی صورت حال بنی رہے تاکہ اصل موضوعات کی طرف عوام کا دھیان نہ جائے اور یہ ہر طرح کی جوابدہی سے بچے رہیں۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا یہ آنے والے اسمبلی انتخابات کے پیش نظر تو نہیں کیا جا رہا، ان کا کہنا تھا کہ 'اس میں کوئی دورائے نہیں کہ آئندہ انتخابات میں ایک بار پھر سے رام مندر ایک موضوع ہوگا اور نہ بھی ہوا تو ان کی پروپیگنڈا مشینری اسے موضوع بنا دے گی جس کا یقینی طور پر ان کو فائدہ ملے گا۔'
غور طلب ہے کہ اس سال اکتوبر -نومبر میں ریاست بہار میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں ۔ بہار کا انتخاب بی جے پی کے لیے اس لیے اہم ہے کیونکہ گزشتہ پارلیمانی انتخابات میں زبردست کامیابی حاصل کرنے کے باوجود اسمبلی انتخابات میں پارٹی کو منہ کی کھانی پڑی تھی۔
یہ الگ بات ہے کہ بعد میں بی جے پی ایک دوسری پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔اسی طرح اگلے سال اپریل -مئی میں مغربی بنگال کے اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔
یہ ریاستی انتخاب بی جے پی کے لیے مزید اہم ہے کیونکہ ابھی تک پارٹی مغربی بنگال میں حکومت بنانے میں ناکام رہی ہے۔