بابری مسجد کی جگہ رام مندر کا افتتاح، پاکستان کی مذمت

پاکستانی وزارت خارجہ نے کہا کہ ’انڈیا میں ’ہندوتوا‘ نظریے کی بڑھتی ہوئی لہر مذہبی ہم آہنگی اور علاقائی امن کے لیے سنگین خطرہ ہے۔‘

22 جنوری 2024 کو انڈین وزیر اعظم نریندر مودی ایودھیا میں رام مندر کی سیڑھیوں پر افتتاح کے لیے جاتے ہوئے (پی آئی بی / اے ایف پی)

پاکستان نے انڈیا کے شہر ایودھیہ میں منہدم کی جانے والی بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر کی مذمت کی ہے۔

پاکستان کی وزارت خارجہ نے پیر کو جاری کردہ اپنے بیان میں کہا ہے کہ صدیوں پرانی بابری مسجد کو چھ دسمبر 1992 کو انتہا پسندوں کے ہجوم نے منہدم کر دیا تھا، افسوس کی بات یہ ہے کہ انڈیا کی اعلیٰ عدلیہ نے نہ صرف اس گھناؤنے فعل کے ذمہ دار مجرموں کو بری کر دیا بلکہ منہدم مسجد کی جگہ پر مندر کی تعمیر کی بھی اجازت دے دی۔

گزشتہ 31 سال سے جاری صورت حال کے نتیجے میں آج (پیرکو) رام مندر کے افتتاح کی تقریب ہوئی جس سے انڈیا میں بڑھتی ہوئی اکثریت پسندی کی نشاندہی ہوتی ہے۔ یہ صورت حال انڈیا میں رہنے والے مسلمانوں کو سماجی، معاشی اور سیاسی طور پر پسماندہ کرنے کی جاری کوششوں کا ایک اہم پہلو ہے۔

پاکستانی وزارت خارجہ کے مطابق: ’منہدم مسجد کے مقام پر تعمیر کیا گیا مندر مستقبل میں کی جمہوریت کے چہرے پر ایک دھبہ رہے گا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ وارانسی کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی عیدگاہ مسجد سمیت مساجد کی بڑھتی ہوئی فہرست کو بے حرمتی اور تباہی کے اسی طرح کے خطرے کا سامنا ہے۔‘

پاکستانی وزارت خارجہ نے کہا کہ ’انڈیا میں ’ہندوتوا‘ نظریے کی بڑھتی ہوئی لہر مذہبی ہم آہنگی اور علاقائی امن کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ انڈیا کی دو بڑی ریاستوں اتر پردیش اور مدھیہ پردیش کے وزرائے اعلیٰ بابری مسجد کے انہدام یا ’رام مندر‘ کے افتتاح کو پاکستان کے کچھ حصوں پر قبضہ کرنے کی جانب پہلا قدم قرار دے رہے ہیں۔‘

عالمی برادری کو انڈیا میں بڑھتے ہوئے اسلامو فوبیا، نفرت انگیز تقاریر اور نفرت انگیز جرائم کا نوٹس لینا چاہیے۔ اقوام متحدہ اور دیگر متعلقہ بین الاقوامی اداروں کو چاہیے کہ وہ انڈیا میں اسلامی ورثے کے مقامات کو انتہا پسند گروپوں سے بچانے اور انڈیا میں اقلیتوں کے مذہبی اور ثقافتی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔

وزارت خارجہ کے بیان میں مزید کہا گیا کہ ’پاکستان انڈین حکومت پر زور دیتا ہے کہ وہ مسلمانوں اور ان کے مقدس مقامات سمیت مذہبی اقلیتوں کا تحفظ اور سلامتی یقینی بنائے۔‘

انڈین وزیر اعظم مودی کے ہاتھوں رام مندر کا افتتاح

سنہرے رنگ کے روایتی لباس میں مودی نے آج 50 میٹر (160 فٹ) طویل مندر کے وسط میں ہندو دیوتا رام کی سیاہ رنگ کے پتھر سے بنی مورتی کی نقاب کشائی کی۔ یہ مورتی اس مقام پر بنائی گئی ہے جہاں صدیوں تک مسجد کا وجود رہا جسے ان کی پارٹی کے انتہا پسندوں نے اکسائے جانے پر 1992 میں منہدم کر دیا۔

مندر کے افتتاح کے موقعے پر اس کے باہر سڑکوں پر موجود موجود ہزاروں ہندوؤں نے جھنڈے لہرائے اور مذہبی نعرے لگائے۔ اس موقعے پر سنکھ اور ڈھول بھی بجائے گئے۔ فوجی ہیلی کاپٹروں نے آسمان سے پھولوں کی پتیاں نچھاور کیں۔

اس موقعے پر ایودھیہ کی مسلمان برداری کے چند ارکان بھی سڑکوں پر دکھائی دیے جب کہ حزب اختلاف کے رہنماؤں نے مندر کی افتتاحی تقریب میں شرکت نہیں کی۔

ہندو انتہا پسندوں نے 1992 میں شمالی ریاست اتر پردیش کے شہر ایودھیا میں 16 ویں صدی کی ایک مسجد کو یہ کہتے ہوئے مسمار کر دیا تھا کہ یہ اُس جگہ پر ایک قدیم مندر کے اوپر تعمیر کی گئی تھی جہاں سات ہزار قبل بھگوان رام نے جنم لیا تھا۔

انڈین سپریم کورٹ کا کردار

اس تنازعے نے کئی دہائیوں تک مسلمانوں اور ہندووں کے درمیان تعلقات کو کشیدہ رکھا جب کہ مسجد کی مسماری کے بعد پھوٹنے والے مسلم کش فسادات میں دو ہزار افراد جان سے گئے۔

انڈیا کی سپریم کورٹ نے 2019 میں ایک متنازع فیصلے میں بابری مسجد کی جگہ کو ہندوؤں کے حوالے کرنے اور اس کے متبادل مسجد کی تعمیر کے لیے شہر میں کسی اور جگہ زمین الاٹ کرنے کا حکم دیا تھا۔

عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ بابری مسجد کو گرانا غیر قانونی تھا۔ عدالتی فیصلے کے بعد تقریباً 18 کروڑ ڈالر کی لاگت سے مندر کی تعمیر فوری شروع کر دی گئی جس کے گراؤنڈ فلور کا افتتاح ہندو قوم پرست وزیر اعظم نریندر مودی 22 جنوری کو کریں گے۔

ادھر مسلم گروپس کو بابری مسجد کے مقام پر بنائے گئے رام مندر سے تقریباً 25 کلومیٹر دور ایک ویران جگہ پر مسجد کی تعمیر اور اس کے لیے فنڈ اکٹھا کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

آئی آئی سی ایف کے صدر ظفر احمد فاروقی نے روئٹرز کو بتایا: ’ہم نے فنڈز کے لیے کسی سے رابطہ نہیں کیا تھا اور نہ ہی کوئی عوامی تحریک چلائی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کے برعکس وزیر اعظم مودی کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور اس سے منسلک ہندو گروپوں نے تین دہائیوں سے بھی زیادہ عرصہ قبل رام مندر کے لیے عطیات جمع کرنا شروع کیے تھے اور انڈیا میں چار کروڑ افراد اس فنڈ میں سے 30 ارب روپے سے زیادہ رقم جمع کرا چکے ہیں۔

مودی کی جانب سے مندر کا افتتاح ایک بار پھر انہیں ہندو دھرم کے محافظ کے طور پر پیش کرے گا جو اپریل میں شروع ہونے والے عام انتخابات سے پہلے بظاہر ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا جا رہا ہے۔

توقع ہے کہ رام مندر کا افتتاح اگلے سال ہونے والے عام انتخابات میں ہندو قوم پرست بی جے پی کی کامیابی کے امکانات کو بڑھا دے گا، کیونکہ اس نے اپنی مہم کے دوران کیے گئے اہم وعدوں میں سے ایک کو پورا کیا ہے۔

اخبار ’دی ہندو‘ کی پولیٹیکل ایڈیٹر نسٹولا ہیبر نے اے ایف پی کو بتایا کہ افتتاحی تقریب حکمران جماعت کی ’مذہبی قوم پرستی‘ کو ظاہر کرے گی۔

ان کے بقول: ’افتتاح کے وقت کا تعلق اس حقیقت سے ہے کہ بی جے پی انتخابات میں جا رہی ہے۔‘

پس منظر

ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ بھگوان رام کا جنم سات ہزار سال قبل ایودھیا کے اسی مقام پر ہوا تھا جہاں 16ویں صدی کے ایک مسلمان شہنشاہ بابر نے مندر گرا کر مسجد تعمیر کروائی، جسے بابری مسجد کہا جاتا تھا۔

بی جے پی نے عوامی مہم میں ایک اہم کردار ادا کیا، جس کی وجہ سے آخرکار مسجد کو مسمار کر دیا گیا۔

پارٹی کے سینیئر رہنما لال کشن اڈوانی نے اس مہم کے لیے ملک گیر رتھ نکالی تھی جس کا مقصد بابری مسجد کو مسمار کرنا تھا۔ بی جے پی کی مہمات کے نتیجے میں متعدد مذہبی فسادات نے جنم لیا۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا