لاہور سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر زیبا وقار وڑائچ حالیہ عام انتخابات میں پہلی بار جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے عملی سیاست میں قدم رکھ رہی ہیں لیکن سیاسی معاملات ان کے لیے کچھ نئے نہیں کیونکہ ان کے شوہر وقار ندیم وڑائچ طویل عرصے سے سیاست میں ہیں اور جماعت اسلامی سے ہی منسلک ہیں۔
ڈاکٹر زیبا وقار پیشے کے اعتبار سے گائناکالوجسٹ ہیں لیکن انہوں نے اپنے اس پیشے کو خیر آباد کہا اور قرآن کی تعلیم حاصل کرنے کا عزم کیا اور اب وہ سیاست میں بھی قدم رکھ رہی ہیں۔
ڈاکٹر زیبا کے مدمقابل لاہور کے حلقے این اے 122 میں پاکستان تحریک انصاف سے لطیف کھوسہ جبکہ پاکستان مسلم لیگ ن سے سعد رفیق ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو نے اس سلسلے میں ان سے ملاقات کی اور ان کی سیاسی زندگی کے ساتھ ساتھ دیگر معاملات پر بھی گفتگو کی۔
این اے 122 کے حوالے سے زیبا نے بتایا کہ ’بے شک یہ لاہور کے بڑے حلقوں میں سے ایک ہے اور اس کے ساتھ چار صوبائی اسمبلی کے امیدوار ہیں لیکن اصل بات یہ ہے کہ یہ پڑھے لکھے لوگوں کا حلقہ ہے۔ یہ دانشوروں اور اشرافیہ کا حلقہ ہے۔ یہاں مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میرا ہاتھ اونچا ہے کیوں کہ جب پڑھے لکھے لوگ آتے ہیں تو میری قوم ان چیزوں کو قبول بھی کرتی ہے، انہیں تسلیم بھی کرتی ہے اور یہ ہم سب کے لیے بہت مثبت حمایت ہو گی۔‘
سیاست میں اپنی انٹری کے حوالے سے ڈاکٹر زیبا کا کہنا تھا: ’سیاست میں تو شاید میں (پائنیئر) ہوں جس نے پہلی بار سیاست میں قدم رکھا ہے لیکن شادی کے بعد سے لگاتار سیاسی ماحول تو یقیناً ملا کیونکہ میرے شوہر (وقار ندیم وڑائچ) کا تعلق بھی جماعت (اسلامی) سے ہے اور انہیں ایک امیدوار کے طور پر لگاتار دیکھا ہے، لیکن اب چونکہ مجھے نامزد کر دیا گیا ہے تو اللہ سے مدد کی امید ہے۔ سب بہترین ہو گا اورہمیشہ کہیں سے تو شروعات کرنا ہوتی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اپنے مخالفین سے مقابلے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ جب کام شروع کیا جاتا ہے تو نگاہ اور حوصلے بلند رکھ کر کیا جاتا ہے۔
’میں تو اس بات پر قوی یقین رکھتی ہوں کہ کامیابی حاصل کرنے والے وہی ہوتے ہیں جو اپنے اہداف اونچے رکھتے ہیں۔ باقی معاملہ اللہ کے ہاتھ میں ہوتا ہے، وہ جو بھی فیصلہ کرتا ہے وہ بہترین ہوتا ہے، لیکن ہم کوشش کریں گے اوراپنی پوری جان لگائیں گے۔ ہمارے پاس بہت سی حمایت اور حمایتی ہیں اور ہم اچھے کی امید رکھتے ہیں۔‘
زیبا کے تین بچے ہیں اور وہ گھر سنبھالنے کے ساتھ ساتھ ’النسا‘ کے نام سے ایک دینی ادارہ بھی چلا رہی ہیں، جہاں زیبا کے مطابق ملک بھر سے نوجوان طالبات قرآن کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے آتی ہیں۔
زیبا اب چونکہ سیاست بھی کر رہی ہیں تو اپنے اپنی دیگر مصروفیات کے حوالے سے انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ایک فوجی افسر کی بیٹی ہونے کے ناطے مجھ میں وقت کی پابندی بہت زیادہ ہے۔ میں گھڑی کے ساتھ چلتی ہوں۔ میری زندگی کا ایک اصول ہے، جلدی سونا اور جلدی اٹھنا۔ میں عشا کی نماز کے بعد سو جاتی ہوں اور پوری رات کی نیند مجھے ترو تازہ کر دیتی ہے۔ میں صبح بھی بہت جلد بیدار ہوتی ہوں۔ میرا خیال ہے کہ ابھی دنیا سو رہی ہوتی ہے اور میرے بہت سے کام ختم ہو چکے ہوتے ہیں۔‘
زیبا نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ان کا ایک بھرا پرا گھر ہے۔
’میرے تین بچے ہیں اور سب شادی شدہ ہیں جبکہ میرے گھر میں میرے بچوں کے بچے بھی ہیں، جن میں میرے دو بیٹوں سے میرے چار پوتے ہیں جبکہ ایک بیٹی سے میری تین نواسیاں ہیں اور یہ سب گھر میں میرے ارد گرد کھیلتے کوددتے رہتے ہیں۔‘
زیبا صبح گھر سے نکلتی ہیں اور اس کے بعد وہ اپنے قرآن گھر جاتی ہیں۔
’قرآن ہاؤس کی کلاسیں، یہاں کا پورا سسٹم، یہاں کا سارا انتظام اور بچیوں سے بات چیت ہوتی ہے۔ یہ بچیاں جو ہمارے پاس پورے پاکستان سے آتی ہیں، جو والدین نے اعتماد کے ساتھ ہمارے پاس بھیجی ہیں۔ میں ان کے ساتھ ایک معیاری وقت گزارتی ہوں۔‘
سیاسی نامزدگی کے بعد زیبا کے معمول میں ایک اور چیز کا اضافہ ہوا اور وہ ہے انتخابی مہم۔ قرآن گھر سے وہ اپنے حلقے میں جاتی ہیں۔
انہوں نے بتایا: ’آج کل تو سر کھجانے کی فرصت نہیں ہے کیوں کہ پورے حلقے میں پروگرامز، کارنر میٹنگز وغیرہ سب کچھ چل رہا ہے۔ اللہ وقت میں برکت بھی دے گا اور یہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔‘
ڈاکٹر زیبا کو اپنی سیاسی مہم میں ان کے شوہر وقار ندیم وڑائچ کا بھی بھرپور تعاون حاصل ہے۔
انڈپینڈںٹ اردو سے بات کرتے ہوئے وقار ندیم وڑائچ نے کہا: ’میری خواہش بھی تھی اور اسلام کوئی پابندی نہیں لگاتا۔ خواتین کو آگے بڑھ کر آنا چاہیے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اللہ نے ڈاکٹر زیبا کو ٹیلنٹ دیا ہوا ہے کہ جس طرح وہ اپنے پلیٹ فارم سے خواتین میں قرآن کی آگہی پیدا کرنے کے حوالے سے کوششیں کر رہی ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ ایسی ٹیلنٹڈ خاتون کو اسمبلی کے اندر بھی آنا چاہیے۔‘
زیبا کہتی ہیں کہ اگر وہ یہ نشست جیت گئیں تو ان کا منصوبہ قرآن کی تعلیم پر عمل کروانا ہے۔
’وہ جو وعدہ ہم نے اللہ سے کیا تھا کہ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا للہ، اس وعدے کو اللہ سے نبھانا ہے اور یہی منصوبہ ہے، یہی کوشش ہے، اور یہی ہمارے ملک کے مسائل کا حل ہے۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔