’میرے چار بچے ہیں ان میں سے میرا بڑا بیٹا جوان ہے لیکن میں نے اپنی زندگی ایک بار بھی ووٹ نہیں ڈالا، کیوں کہ میرا شناختی کارڈ اب تک نہیں بنا۔‘
یہ کہنا ہے بلوچستان کے علاقے خضدار کے پہاڑی اور پسماندہ علاقہ کنجڑ سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کا، جنہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ایک تو ہمارے علاقے میں شناختی کارڈ بنانے کی سہولت میسر نہیں اور شہر تک رسائی بھی میرے لیے ایک بڑی مشکل ہے۔ کنجڑ جیسے پسماندہ علاقوں میں اکثر خواتین اور مردوں کے پاس بھی شناختی کارڈ موجود نہیں ہے۔‘
چونکہ الیکشن قوانین کے مطابق ووٹ ڈالنے کے لیے شناختی کارڈ لازمی ہے، اس لیے آٹھ فروری 2024 کو ہونے والے قومی اور صوبائی انتخابات میں یہ خاتون ووٹ ڈالنے کے حق سے محروم رہیں گی۔
صرف کنجڑ تک منحصر نہیں، بلوچستان کے کئی دوسرے علاقوں میں بھی یہی صورتِ حال ہے۔ ضلع سوراب کے دیہی علاقے گدر سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’ہمارے شناختی کارڈ نہیں بن رہے ہیں ہمیں یہاں شناختی کارڈ بنانے میں بہت مشکلات درپیش ہیں۔ میں نے کبھی ووٹ بھی نہیں دیا، میری عمر 30 سال ہوئے ہیں لیکن ابھی تک میرا شناختی کارڈ نہیں ہے اس کی وجہ شناختی کارڈ کے حصول میں مشکلات ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میرا تعلق ضلع سوراب کے دیہی علاقے سے ہے۔ ہم وہاں سے یہاں خضدار آئے ہیں لیکن یہاں پر ہمارے شناختی کارڈ نہیں بن رہے ہیں، ہمارے علاقے میں شناختی کارڈ بنانے کی کوئی سہولت دستیاب نہیں ہے۔‘
2023 کی ڈیجیٹل مردم شماری کی تفصیل آنا باقی ہے تاہم پہلے مرحلے میں محکمہ شماریات کے مطابق بلوچستان کی آبادی ایک کروڑ 48 لاکھ سے 94 ہزار ہے۔2017 اور 1998 میں ہونے والے مردم شماری پر تجزیہ کیا جائے تو کل آبادی کا تقریباً 45 فیصد حصہ 18 سال سے زائد عمر والے بنتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس حساب سے بلوچستان میں 67 لاکھ دوہزار تین سو افراد بالغ عمر والے بنتے ہیں جبکہ ان میں سے الیکشن کمیشن کے پاس جولائی 2023 تک رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد 52 لاکھ 84 ہزار پانچ سو 94 ہے، یعنی بلوچستان کے تقریباً 14 لاکھ مرد اور خواتین کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہے۔
خواتین کے اعداد شمار کا اندازہ لگایا جائے تو کل بالغ آبادی میں مرد خواتین کا تناسب 53 اور 47 ہے یعنی 47 فیصد خواتین ہیں جو تقریباً 31 لاکھ 50 بنتی ہیں۔ بلوچستان کی ان 31 لاکھ خواتین میں سے دسمبر 2023 تک صرف 23 لاکھ 55 ہزار 783 خواتین ووٹ کے لیے رجسٹرڈ ہیں، باقی صوبے کی تقریباً آٹھ لاکھ کے قریب خواتین کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہے جو آئندہ انتخابات میں حق رائے دہی استعمال کرنے سے محروم رہیں گی۔
’غربت اصل وجہ‘
پروفیسر ڈاکٹر شہناز بلوچ، 2018 کے عام انتخابات میں خواتین کے مخصوص نشست پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اندرونی بلوچستان میں خضدار جیسے پسماندہ شہروں میں خواتین کے پاس شناختی کارڈ بنانے کے لیے پیسے نہیں ہوتے ہیں جس کی وجہ بڑی تعداد میں خواتین حق رائے دہی سے محروم ہو جاتی ہیں۔
’بلوچستان میں اتنی زیادہ غربت ہے، پورے بلوچستان میں زیادہ سے زیادہ دو یا تین ہزار خواتین ہوں گی جو ٹیچرز، ڈاکٹرز یا انجینیئرز ہیں، کچھ وکیل بھی ہیں۔ باقی خواتین غربت کا شکار ہیں، دیہی علاقوں کی خواتین کو شہروں تک رسائی میں مشکلات ہیں، خواتین کے شناختی کارڈ فراہم کرکے ووٹ کا حق دیا جا سکتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسمبلیوں میں ہم خواتین کو کوئی سپورٹ ہی نہیں کرتا ہے۔‘
282 مرد، آٹھ خواتین امیدوار
2018 کے عام انتخابات میں بلوچستان کے صوبائی اسمبلی کے حلقوں پر تقریباً 30 کے قریب خواتین نے انتخابات میں حصہ لیا، لیکن بدقسمتی سے ایک بھی جیت نہ سکی۔
بلوچستان سے قومی اسمبلی کے نشستوں پر آٹھ خواتین امیدوار تھیں اور 282 مرد امیدوار تھے۔ 18 لاکھ سے زائد خواتین رجسٹرڈ ووٹروں کے باوجود آٹھ خاتون امیدواروں میں سے صرف ایک زبیدہ جلال براہ راست انتخابات میں جیتنے میں کامیاب ہو سکیں۔
اس حلقے کے ووٹوں کی شرح دیکھی جائے تو بلوچستان میں یہ واحد حلقہ ہے جہاں خواتین ووٹوں کی شرح زیادہ ہے۔ خواتین ووٹروں کا شرح 43.63 فیصد جبکہ مرد ووٹروں کی شرح 37.07 فیصد ہے۔
سابق ایم پی اے بلوچستان یاسمین لہڑی نے بتایا کہ ’میں نے یہ مشورہ دیا ہے کہ خواتین کے الگ سے حلقے ہوں اور وہاں پہ صرف خواتین امیدوار آپس میں ایک دوسرے سے مقابلہ کریں تاکہ ایک نیا ٹرینڈ چل پڑے۔ خواتین کو سیاست میں اختیارات دے کر خواتین کو حوصلہ افزائی دینے کی ضرورت ہے۔ سیاسی پارٹیوں سمیت ہر فرد اور ہر پلیٹ فارم کو خواتین کی ترقی کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
’خواتین کو سیاست اور ووٹ کے عمل کا حصہ بنائیں ہم سب کو معاشرے ساخت کو دیکھنے کی ضرورت ہے کسی بھی معاشرے کو ساخت کو بنیاد ایک خاتون کی شعور سے جڑا ہوا ہے سب سے بڑھ لوگوں کو خواتین کی ترقی کےلیے آگاہی دینا لازمی ہے۔‘
شہری علاقوں میں ووٹ کی شرح کم
فافین کی ایک رپورٹ کے مطابق 2018 کے عام انتخابات میں صوبے کے شہری علاقوں کے مقابلے میں دیہی علاقوں کی خواتین زیادہ تعداد میں ووٹ کاسٹ کرتی ہیں۔ تعجب کی بات تو یہ ہے بلوچستان کے صدر مقام کوئٹہ شہر میں قومی اسمبلی کے تینوں حلقوں میں خواتین ووٹروں کی سب سے کم شرح رہی ہے، جن میں سب سے کم این اے 266 کوئٹہ 3 کے حلقے میں خواتین ووٹوں کی شرح 24.96 فیصد ہے اور اس حلقے میں مرد ووٹوں کی شرح بھی صوبے کے باقی حلقوں سے سب سے کم ہے۔
بلوچستان کے صوبائی حلقوں میں خواتین ووٹوں کی شرح سب سے کم پی بی 19 کوہلو میں 15.38، دوسرے نمبر پر پی بی 1 موسیٰ خیل کم شیرانی میں خواتین ووٹوں کی شرح 19.21 فیصد ہے۔
خواتین ووٹوں کی شرح سب زیادہ 59.48 فیصد پی بی 38 خضدار 1 میں ریکارڈ کی گئی تھی۔
صرف ووٹ نہیں، خواتین باقی حقوق سے بھی محروم
بےنظیر بھٹو وومن سینٹر خضدار کی مینیجر روبینہ کریم زہری کا کہنا ہے کہ ’جب ہم کسی خاتون کا عدالت میں کیس دائر کرتے ہیں اور معزز جج صاحبان اس متاثرہ خاتون کے حق میں فیصلہ کرتے ہیں لیکن خواتین کے پاس شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ وہ اپنے حق سے محروم رہ جاتی ہیں۔ ان بنیادی حقوق میں وراثت کے حقوق، تعلیم اور بچوں کا حق بھی شامل ہے ہمیں تعلیمی اداروں میں خواتین کے حقوق اور شناختی کارڈ کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی سخت ضرورت ہے۔‘
صوبائی دارلحکومت کوئٹہ میں خواتین کی شرح ووٹ کم ہونے کی وجوہات جاننے کے لیے بلوچستان کی پہلی خاتون سپیکر راحیلہ حمید خان درانی سے رابطہ کیا گیا جو خواتین کے حقوق کے لیے بلوچستان میں بڑی آواز رکھتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’پارٹیاں ایک ایسے حلقے سے خواتینوں کو ٹکٹ دیتی ہیں جہاں سے خواتین کی جیت ناممکن ہو۔ بلوچستان کی سیاست کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ضرورت کو نوجوانوں کے علاوہ پڑھے لکھے خواتین پورا کر سکتی ہیں، بلوچستان میں لوگوں کی عدم دلچسپی اور لیڈروں کی نظر اندازی سے خواتین سیاست میں کمزور ضرور ہیں لیکن اس کمزوری کو ہماری بچیاں کبھی آڑے آنے نہیں دیں گی۔ پنجاب اور بلوچستان کی سیاست میں بہت زیادہ فرق ہے اس لیے بلوچستان میں خواتین کے لیے سیاسی ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔‘
نادرا کے پاس موبائل گاڑیاں ہیں یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ زیادہ زیادہ سے دیہی علاقوں میں لوگوں کو شناختی کارڈ فراہم کریں: جان اچکزئی
حکومت کی ذمہ داری
بلوچستان میں بڑی تعداد میں خواتین شناختی کارڈ سے کیوں محروم ہیں، اس سلسلے میں انڈپینڈنٹ اردو نے ترجمان حکومت بلوچستان جان اچکزئی سے سوال کیا تو انہوں نے بتایا کہ ’انتخابات میں ہر پاکستانی کا چاہے وہ مرد ہو یا خاتون ہو ان کا حصہ لینا ان کا حق ہے اور یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ انہیں آئی ڈی کارڈ فراہم کیا جائے۔ اس سلسلے میں یقین دلاتا ہوں میں نادرا کے صوبائی ذمہ داران سے بات کرتا ہوں کہ کس طرح ہم خواتین کو زیادہ سے زیادہ شناختی کارڈ فراہم کر سکتے ہیں۔ نادرا کے پاس موبائل گاڑیاں ہیں یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ زیادہ زیادہ سے دیہی علاقوں میں لوگوں کو شناختی کارڈ فراہم کریں۔‘
خضدار کے علاقے سوراب سے تعلق رکھنے والے احمد نے انڈپنڈنٹ اردو کو بتاتے ہوئے کہا کہ ’میری بیگم کی عمر 29 سال ہے، لیکن ان کا شناختی کارڈ ابھی تک بن نہیں سکا، اس کی وجہ شناختی کارڈ بنانے کے طریقہ میں پیچیدگی ہے۔
’سوراب میں کئی بار نادرا کا رخ کیا لیکن انہوں نے بتایا کہ جا کے احتجاجاً روڈ بند کر دو۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’دیہی علاقوں کو کی خواتین کو نادرا سینٹر پہنچنے میں وقت لگتا ہے، جب 10 بجے شہر کے نادرا سینٹر پہنچتے ہیں تو ٹوکن کا وقت ختم ہو جاتا ہے اور بلوچستان کے ہر شہر میں یہی صورت حال ہے۔ دیہی علاقوں کی خواتین کی آسانی کے لیے نادرا اپنی موبائل گاڑیاں اضافہ کر کے ہر گاؤں میں سروسز فراہم کریں۔‘
انڈپینڈنٹ اردو کی ٹیم نے شناختی کارڈ سے محروم مختلف خواتینوں رسائی حاصل کی لیکن انہوں نے قبائلی رسم رواج اور پردہ کی وجہ سے ویڈیو انٹرویو دینے سے منع کر دیا، لیکن شناختی کارڈ کے حوالے سے اپنے مشکلات ضرور پیش کیں۔
انڈپینڈنٹ اردو نے نادرا حکام کو آر ٹی آئی بھیجنے کے علاوہ ان سے رابطہ کرنے کی کوشش لیکن تاحال ان کی جانب کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔