پاکستان تحریک انصاف کے بانی اور سابق وزیر اعظم عمران خان کے میانوالی میں آبائی گھر کی دیواروں پر فروری میں ہونے والی عام انتخابات سے قبل مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف کی تصاویر دیکھائی دے رہی ہیں۔
عمران خان کے کزن انعام اللہ خان، سعید اللہ خان اور دیگر بھی اسی مکان میں رہتے ہیں کیونکہ یہ سب کا مشترکہ آبائی گھر ہے۔ اس گھر کے در و دیوار پر سابق وزیر اعظم نواز شریف کی تصاویر آویزاں کرنے کی وجہ یہ ہے کہ انعام اللہ خان نیازی کا تعلق پاکستان مسلم لیگ ن سے ہے۔
سابق وزیر اعظم عمران خان صوبہ پنجاب کے شہر میانوالی کے شیرمان خیل قبیلہ میں 1952 میں اکرام اللہ خان نیازی کے گھر پیدا ہوئے، جو ’عظیم منزل‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
ڈاکٹر عظیم خان نیازی بانی تحریک انصاف عمران خان کے دادا تھے جنہوں نے اس گھر کی بنیاد 1904 میں رکھی۔
میانوالی پہلے خیبرپختونخوا کے ضلع بنوں کا حصہ تھا جسے بعد میں پنجاب میں شامل کر کے 1906 میں ضلع کا درجہ دیا گیا۔ اس ضلع کا رقبہ 5840 مربع کلومیٹر ہے اور اس کی کل آبادی 17 لاکھ 63 ہزار ہے۔
اس کی تین تحصیلیں ہیں جن میں تحصیل عیسیٰ خیل، تحصیل میانوالی، تحصیل پپلاں شامل ہیں۔ میانوالی میں قومی اسمبلی کے دو اور صوبائی اسمبلی کے چار حلقے ہیں۔
ان میں حلقہ این اے 89 میانوالی 1، حلقہ این اے 90 میانوالی 2، حلقہ پی پی 85، حلقہ پی پی86، صوبائی حلقہ پی پی 87 اور حلقہ پی پی 88 شامل ہیں۔ عمران خان حلقہ این اے 89 سے الیکشن لڑتے ہیں۔
یہ حلقہ پہلے این اے 71 پھر این اے 95 اور اب این اے 89 بن چکا ہے۔ اس حلقہ سے نواب ملک مظفر خان آف کالا باغ چار مرتبہ ایم این اے منتخب ہو چکے ہیں۔ ان کے بعد مولانا عبدالستار خان نیازی، مقبول احمد خان، عبید اللہ خان شادی خیل، نوابزادہ ملک عماد خان اور عمران خان یہاں سے ایم این اے منتخب ہو چکے ہیں۔
میانوالی میں رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 10 لاکھ 68 ہزار ہے، جن میں پانچ لاکھ 60 ہزار مرد ووٹر جبکہ پانچ لاکھ آٹھ ہزار خواتین ووٹرز شامل ہیں۔
عمران خان کے حلقہ این اے 89 میں ووٹرز کی کل تعداد پانچ لاکھ ہے جن میں مرد ووٹرز کی تعداد دو لاکھ 92 ہزار جبکہ خواتین ووٹرز کی تعداد دو لاکھ 63 ہزار ہے۔ عمران خان اس حلقہ سے تین بار ایم این اے منتخب ہوئے اور اسی نشست سے وزیر اعظم پاکستان بھی بن چکے ہیں۔
ورلڈ کپ جیتنے اور شوکت خانم ہسپتال بنانے کے بعد 1997 میں انہوں نے سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھی اور سب سے پہلے1997 میں چراغ کے انتخابی نشان پر الیکشن میں حصہ لیا۔ اس الیکشن میں عمران خان کو میانوالی سے 18 ہزار ووٹ ملے تھے اور وہ قومی اسمبلی تک نہیں پہنچ سکے۔
اس کے بعد 2002 کے انتخابات میں عمران خان نے بلے کے نشان پر الیکشن لڑا اور میانوالی کے حلقہ این اے 71 (جو اب حلقہ این اے 89 ہے ) سے انہیں صرف ایک قومی اسمبلی کی سیٹ ملی جس سے وہ قومی اسمبلی میں پہنچے۔
بعد میں عمران خان نے 2008 کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تو اس حلقے سے کالاباغ سے تعلق رکھنے والے نوابزادہ ملک عماد خان ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے جنہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔
عمران کی جماعت 2013 کے انتخابات میں میانوالی میں مقبول ہو چکی تھی اور یہاں کے عوام میں اس کی جڑیں مظبوط تھیں۔ 2013 کے الیکشنز میں میانوالی کی قومی اسمبلی کی دو اور صوبائی اسمبلی کی پانچ نشستوں پر تحریک انصاف نے کامیابی حاصل کی تھی۔‘
ان انتخابات میں عمران خان ایک لاکھ 33 ہزار ووٹ لے کر ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے تاہم بعد میں انہوں نے میانوالی کی سیٹ چھوڑ کر روالپنڈی کی سیٹ اپنے پاس رکھی۔
ان کے نشست چھوڑنے پر ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کے امیدوار نواب ملک وحید خان کو مسلم لیگ ن کے امیدوار عبید اللہ شادی خیل کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
پھر آئے 2018 کے انتخابات، جس میں عمران خان نے میانوالی کے قومی اور صوبائی حلقوں کی تمام نشستوں پر فتح حاصل کی اور اپنے حلقہ این اے 95 میں ایک لاکھ 63 ہزار ووٹ حاصل کر کے وزیر اعظم پاکستان منتخب ہوئے۔
وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد انہوں نے اس حلقہ میں احمد خان نیازی کو اپنا کوارڈینیٹر منتخب کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عمران خان کے وزارت عظمیٰ کے دور میں میانوالی میں ’مدر اینڈ چائلڈ‘ ہسپتال کی تعمیر، چاپری واٹر پراجیکٹ اور میانوالی یونیورسٹی سیاحت کا منصوبہ، کندیاں میں بلین ٹری منصوبہ اور مختلف دیہاتوں میں سڑکوں کے منصوبے شامل ہیں۔
اب سابق وزیر اعظم کا دور اقتدار ختم ہو چکا ہے اور وہ اس وقت جیل میں ہیں۔ ان کی غیر موجودگی میں میانوالی میں ان کے اراکین اسمبلی، ورکرز اور عہدیدار مشکلات کا شکار ہیں۔ ان میں سے کچھ ورکرز نے نو مئی کی مذمت کر کے جان چھڑا لی ہے جبکہ اکثریت جیلوں میں بند ہیں اور کچھ روپوش ہیں۔ مگر عوام میں اب بھی عمران خان کے لیے محبت موجود ہے۔
میانوالی میں نو مئی کے بعد کافی تبدیلیاں آئی ہیں۔ عمران خان کے دیرینہ ساتھی ان سے علیحدگی اختیار کر چکے ہیں اور کچھ پاکستان پیپلز پارٹی اور استحکام پاکستان پارٹی میں شامل ہو چکے ہیں۔
جس صورت حال پر میانوالی کے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار رانا امجد اقبال نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’عمران خان دور اقتدار میں میانوالی میں کوئی بڑا منصوبہ نہیں لا سکے، البتہ دو پرائیویٹ سیمنٹ فیکٹریاں اور کچھ دیگر منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عمران خان نے بڑے منصوبوں میں ذاتی دلچسپی نہیں لی۔‘
رانا محمد اقبال کہتے ہی ںکہ ’میانوالی میں عمران خان نے جب انتخابی مہم شروع کی تھی تو ہم ان کے ساتھ ہوتے تھے اور ان کے جلسے کور کرتے تھے۔‘
ان کے بقول ’جو کچھ اس وقت ملک میں ہو رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ تحریک انصاف کے نامزد کردہ امیدواروں کے لیے مہم چلانا بہت مشکل ہے اور ان کا انتخابی نشان ’بلا‘ بھی ان سے چھن چکا ہے، جس کی وجہ سے ووٹرز تذبذب کا شکار ہیں۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’میانوالی میں تحریک انصاف کے نامزد امیدواروں میں سے کسی کو بوتل کا نشان ملا، کسی کو دروازہ، کسی کو صوفہ، کسی کو وکٹ تو کسی کو پریشر ککر اور چینک کے نشانات ملے ہیں۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور آزاد امیدوار بھی اپنی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں مگر تحریک انصاف کو آزادانہ طور پر مہم چلانے کی اجازت دی جا رہی ہے نہ ہی جلسوں کی۔‘
میانوالی میں انتخابی مہم کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے وہاں کے لوگوں کی رائے لی تو ان میں سے بیشتر کا یہی کہنا تھا کہ ’سب کو لیول پلیئنگ فیلڈ ملنی چاہیے جو کہیں بھی نظر نہیں آ رہی۔‘
ان میں سے کچھ نے مسلم لیگ ن سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’عمران خان سوشل میڈیا پر تو وزیر اعظم بنے ہوئے ہیں مگر الیکشن میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔‘
میانوالی کے حلقہ این اے 89 میں تحریک انصاف کے امیدوار جمال احسن خان ہیں جو عمران خان ہی کی نشست پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ انہیں بوتل کا انتخابی نشان دیا گیا ہے، تاہم انہوں نے تاحال انتخابی مہم کا آغاز نہیں کیا ہے۔
حلقہ این اے 90 میں پی ٹی آئی کے نامزد کردہ امیدوار بیریسٹر عمیر نیازی ہیں جو عمران خان کے وکیل بھی ہیں۔ انہیں بھی حلقہ میں مہم چلاتے نہیں دیکھا گیا جبکہ صوبائی نشستوں پر حلقہ پی پی 85 کے امیدوار میجر (ر) محمد اقبال خٹک ہیں جو منظر نامے سے غائب ہیں۔
پی پی 86 میں تحریک انصاف کے امیدوار امین اللہ خان نیازی ہیں جو 2018 کے الیکشنز میں یہاں سے ایم پی اے منتخب ہوئے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ حلقہ پی پی 87 میں ملک احمد خان بھچر بھی 2018 میں ایم پی اے منتخب ہوئے جبکہ اس بار صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی پی 88 میں سابق سپیکر پنجاب اسمبلی سردار سبطین خان کی بجائے تحریک انصاف کی جانب سے ملک ممتاز اسڑ کو منتخب کیا گیا ہے جن کا انتخابی نشان چینک ہے۔
میانوالی میں آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں تحریک لبیک، جماعت اسلامی، جمیعت علمائے پاکستان اور دیگر مذہبی جماعتوں کے امیدوار بھی میدان میں ہیں مگر اصل مقابلہ تحریک انصاف، ن لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدواروں کے درمیان متوقع ہے۔
عمران خان کے جیل میں ہونے کے بعد ان کی کمی کو محسوس کیا جا رہا ہے مگر نوجوان ووٹر بہت پرجوش ہیں کہ اس کے علاوہ میانوالی کے کچھ بزرگ افراد بھی عمران خان کو ووٹ دینے میں سنجیدہ نظر آتے ہیں۔