تحریکِ انصاف اور انتخابی نشان بلے کو لازم و ملزوم سمجھا جا رہا ہے مگر ایسا نہیں ہے کہ اس جماعت کا انتخابی نشان ہمیشہ سے بلا ہی تھا۔
بلکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ 1997 سے پہلے بلے کا انتخابی نشان الیکشن کمیشن کی سینکڑوں انتخابی نشانوں پر مشتمل فہرست میں شامل ہی نہیں تھا۔
پہلی بار بلے کا نشان 1997 کے الیکشن میں سامنے آیا۔ اگرچہ ان انتخابات میں عمران خان کی نئی نویلی جماعت تحریکِ انصاف بھی شریک تھی، مگر اس وقت اس کا انتخابی نشان بلا نہیں بلکہ چراغ تھا۔ تو پھر بلے کا نشان کس جماعت کی انتخابی پرچیوں پر درج تھا؟ شاید کم ہی لوگوں نے اس جماعت کا نام سنا ہو، ’پاکستان نجات پارٹی۔‘
اس جماعت نے پورے پاکستان سے صرف دو امیدوار کھڑے کیے تھے، جنہوں نے کل ملا کر 648 ووٹ حاصل کیے تھے۔ شاید اسی خراب کارکردگی سے مایوس ہو کر اگلے انتخابات، یعنی 2002 میں، پاکستان نجات پارٹی انتخابی عمل سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا اور یوں بلے کا نشان کسی بھی اور جماعت کے لیے دستیاب ہو گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چونکہ 1997 میں تحریکِ انصاف بھی ساتوں نشستوں پر ناکام ہوئی تھی اور عمران خان سمیت اس کے تمام امیدوار ہار گئے تھے، اس لیے انہوں نے اپنا نشان چراغ سے بدل کر بلے رکھنے کا فیصلہ کیا۔
آج یہی بلا تحریکِ انصاف کی علامت سمجھا جانے لگا ہے۔
انٹرا پارٹی الیکشن میں بے ضابطگیوں کے باعث سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد 2024 کے الیکشن میں پی ٹی آئی بلے کے نشان کے بغیر الیکشن میں حصہ لے گی۔
شیر کا نشان کن جماعتوں کے پاس رہا؟
انتخابی نشان شیر 1970 کے الیکشن سے ہی پاکستان سیاست میں رہا۔ 1970 کے الیکشن میں شیر کا نشان پاکستان مسلم لیگ قیوم نے حاصل کیا جو کہ 1988 کے الیکشنز تک ان کے پاس ہی رہا۔ 1990 میں شیر کا نشان کسی بھی سیاسی جماعت کی جانب سے حاصل نہیں کیا گیا۔ پاکستان مسلم لیگ قیوم نے 1990 کے الیکشن میں شیر کی بجائے سکوٹر کے نشان کا انتخاب کیا۔
1993 کے الیکشن میں پاکستان مسلم لیگ ن کی جانب سے شیر کا نشان حاصل کیا جو کہ تین دہائیوں بعد بھی انہی کے پاس ہی موجود ہے۔
پی پی پی کا تلوار سے تیر کا سفر
پاکستان پیپلز پارٹی نے 1970 اور 1977 کا الیکشن تلور کے نشان پر لڑا مگر 1985 میں غیر جماعتی الیکشنز میں تلوار کا نشان موجود ہی نہیں تھا اور 1988 میں بھی تلوار کا نشان نہ ہونے کی وجہ سے پی پی پی نے 1988 کے بعد سے اب تک تمام الیکشن تیر کے نشان پر ہی لڑے۔
جماعت اسلام کا ترازو اور قلم دوات
جماعت اسلامی نے 1970 کا الیکشن ترازو کے ہی نشان سے لڑا مگر اس کے بعد سیاسی سفر میں مختلف پلیٹ فارمز سے الیکشن بھی لڑے جس میں متحدہ مجلسِ عمل بھی شامل ہے۔
جماعت اسلامی نے 1997 کا الیکشن قلم دوات کے انتخابی نشان پر لڑا اور 2002 کا متحدہ مجلس عمل کے نشان کتاب پر لڑا اور 2013 میں ایک بار پھر ترازو کا حاصل کیا۔
2013 کے الیکشن میں عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے قلم دوات کا نشان حاصل کیا جو 2024 کے الیکشن میں بھی ان کے ہی پاس ہے۔
1988 کے الیکشنز میں پاکستان مسلم لیگ فاورڈ بلاک نے بھی قلم دوات کے نشان پر الیکشن لڑا۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔