اسلام آباد اور تہران کے مضبوط تعلقات اہم ہیں: پاکستانی سفیر

ایک دوسرے کی سرزمین پر فضائی حملوں کے بعد پاکستان اور ایران کے تعلقات میں غیر معمولی کشیدگی دیکھی گئی تاہم 26 جنوری سے دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات مکمل بحال ہو رہے ہیں۔

29 اکتوبر 2023 کی اس تصویر میں ایران میں پاکستانی سفیر مدثر ٹیپو ایک تقریب میں شریک ہیں (مدثر ٹیپو ایکس اکاؤنٹ)

پاکستان کے ایران کے لیے سفیر مدثر ٹیپو جمعے کو تہران واپس پہنچ رہے ہیں اور انہوں نے کہا ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات خطے کے لیے اہم ہیں۔

رواں ماہ کے وسط میں ایران اور پاکستان نے ایک دوسرے کے سرحدی علاقوں میں موجود عسکریت پسندوں کے مبینہ ٹھکانوں کو نشانہ بنایا تھا، جس کے بعد دوطرفہ تعلقات میں غیر معمولی کشیدگی دیکھی گئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایران کی طرف سے پاکستان میں حملوں کی پہل کی گئی، جس کے بعد 16 جنوری کو پاکستان نے شدید احتجاج کرتے ہوئے تہران میں تعینات اپنے سفیر مدثر ٹیپو کو واپس بلانے کا اعلان کیا تھا جبکہ ایرانی سیفر رضا امیری مقدم کو اسلام آباد واپس آنے سے روک دیا گیا تھا۔

تاہم گذشتہ ہفتے دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کے درمیان ٹیلی فون پر رابطے کے بعد سفارتی تعلقات کی مکمل بحالی کا اعلان کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ دونوں ملکوں کے سفیر 26 جنوری سے اپنی ذمہ داریاں سنھبال لیں گے۔

پاکستان کے سفیر مدثر ٹیپو نے جمعے کو ایکس پر اپنے پیغام میں کہا کہ وہ پاکستانی قیادت کی مخلصانہ اور نیک خواہشات کے مطابق تہران واپس جا رہے ہیں۔

بقول مدثر ٹیپو: ’امن پسند پاکستان کو مزید مضبوط اور فعال بنانے کی خاطر کام کرنے کے لیے مزید پرعزم ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پاکستان اور ایران کے مضبوط تعلقات خطے کے لیے اور عوامی رابطوں کے فروغ کے لیے اہم ہیں۔‘

پاکستانی ذرائع ابلاغ کے مطابق ایران کے سفیر بھی جمعے کو پاکستان پہنچیں گے۔

پاکستانی وزارت خارجہ نے گذشتہ پیر کو جاری کو ایک اعلامیے  میں کہا تھا کہ دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کے درمیان ٹیلی فون پر رابطے کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ اسلام آباد اور تہران کے سفیر 26 جنوری سے اپنی پوزیشن پر واپس کام شروع کر سکیں گے۔

مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا کہ پاکستان کے نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی کی دعوت پر ایران کے وزیر خارجہ  حسین امیر عبداللہیان  29 کو اسلام آباد کا دورہ کریں گے۔

کشیدگی کا پس منظر

16 جنوری کو ایران نے پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع پنجگور میں بلوچ عسکریت پسند گروپ جیش العدل کے دو ٹھکانوں کو میزائلوں سے ہدف بنایا تھا۔

پاکستان نے اس حملے پر ایران سے شدید احتجاج کرتے ہوئے تہران سے اپنا سفیر واپس بلا لیا جبکہ پاکستان میں ایرانی سفیر جو اس وقت ملک میں  تھے، کو اسلام آباد واپسی سے بھی روک دیا گیا تھا۔

ایرانی حملے کے ایک روز بعد پاکستان نے ایران کے صوبے سیستان بلوچستان میں فوجی کارروائی کر کے بلوچ عسکری تنظیموں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا تھا۔

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے اس حملے بعد ایک بیان میں کہا تھا کہ انٹیلی جنس معلوت کی بنیاد پر ’درست حملے، کلر ڈرونز، راکٹوں، بارودی سرنگوں اور سٹینڈ آف ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہوئے کیے گئے جن کے دوران وسیع نقصان سے بچنے کے لیے زیادہ سے زیادہ احتیاط برتی گئی۔‘

بیان میں کہا گیا تھا کہ ’بلوچستان لبریشن آرمی (بی آر اے) اور بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) نامی دہشت گرد تنظیموں کے زیر استعمال ٹھکانوں کو انٹیلی جنس پر مبنی آپریشن میں کامیابی سے نشانہ بنایا گیا جس کا کوڈ نام مرگ بر سرمچار تھا۔‘

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا