ساجد وردا برٹش پاکستانی اداکار، پروڈیوسر، رائٹر اور براڈکاسٹر ہیں جن کا انڈسٹری میں تجربہ تیس سال کے عرصے پر محیط ہے۔
2021 میں انہوں یو کے مسلم فلم نامی تنظیم کی بنیاد رکھی جس کا مقصد نہ صرف مغربی فلموں میں مسلمانوں کو منفی انداز میں پیش کرنے خلاف کوشش کرنا تھا بلکہ نیٹ ورکنگ کے ذریعے فلم سازی کے مختلف شعبوں میں مسلم ٹیلنٹ کے لیے نئے مواقع پیدا کرنا بھی تھا۔
ایسے ہی ایک نیٹ ورکنگ ایونٹ میں ساجد وردا کی ملاقات مِم شیخ سے ہوئی جو دارصل اداکار ہیں اور اپنے دوست علی حمزہ کے ساتھ انڈپینڈنٹ اردو کی لندن سے واڈکاسٹ ’ایک کپ چائے کراسنگ کلچرز‘ کے میزبانی بھی کرتے ہیں۔
واڈکاسٹ کی 14ویں قسط کا آغاز مِم شیخ اور ساجد وردا کے درمیان اسی نیٹ ورکنگ ایونٹ کی یاددہانی سے ہوتا ہے۔
ساجد وردا نے بتایا کہ برطانیہ میں اپنی نوعیت کے پہلے اور منفر اکٹھ کا مقصد یہ تھا کہ ’ہم لوگوں کو ایک کمرے میں کس طرح لائیں کہ وہ ایک دوسرے سے ملیں اور تنہا محسوس نہ کریں کیونکہ بہت عام بات جو مسلمان کر رہے ہیں، وہ یہ ہے کہ اس ادارے یا پروڈکشن کمپنی میں واحد، میں ہی کام کرتا ہوں۔ یا میں کسی اور مسلمان کو جانتا ہوں لیکن ہم بات نہیں کرتے کیونکہ اگر ہم نے (عقیدہ) ظاہر کر دیا تو یہ ہمارے لیے مسائل پیدا کر سکتا ہے۔‘
’یہ سننا کتنی افسوسناک بات ہے۔ اسلام بہت خوبصورت ہے۔ ہماری کتنی خوبصورت ثقافت اور میراث ہے جو دنیا کے 55 یا 56 ملکوں میں پھیلی ہوئی ہے۔ دو ارب لوگ ہیں۔ ہم کس چیز چھپ رہے ہیں؟‘
نیٹ ورکنگ ساجد وردا کی یو کے مسلم فلم کا ایک مقصد ہے۔ اس کے علاوہ ان کی تنظیم مغربی فلموں میں مسلمانوں کو منفی کرداروں میں دکھائے جانے کے رجحان سے نمٹ رہی ہے۔ مثلاً بقول ان کے: ’مسلمان عورتوں کو محکوم رکھتے ہیں، مسلم عورتیں مظلوم ہیں، مسلمان دہشت گرد ہیں اور مغرب کے لیے خطرہ ہیں۔ ایسے بیانیے اور کہانیاں عام ہیں جو بہت پریشان کن ہیں۔‘
برٹش فلم انسٹیٹیوٹ (بی ایف آئی) کے تعاون سے وجود میں آنے والی یو کے مسلم فلم نہ صرف اداکاری، بلکہ فلمیں لکھنے، بنانے اور فلم سازی کے ہر شعبے میں مسلمانوں کی نمائندگی بڑھانے کے لیے بھی کوشاں ہے اور اپنے سوشل میڈیا پیجز پر نئی نوکریوں کے اشتہارات کو پروموٹ کرتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تین سال کے مختصر عرصے میں ساجد وردا بی ایف آئی کے مشاورتی گروپ میں شامل ہو چکے ہیں اور انہیں برٹش اکیڈمی آف فلم اینڈ ٹیلی ویژن ایوارڈز (BAFTA) کے جج کا اعزاز بھی ملا ہے۔
جب کسی فلم یا ڈرامے میں مسلمانوں کے متعلق کوئی کردار یا سین ہوتا ہے تو ساجد وردا سے مشاورت کی جاتی ہے تاکہ ایسا کردار، ڈائیلاگ یا سین نہ ہو جس سے مسلمانوں کی دل آزاری ہو۔
ساجد وردا کے مطابق مغربی فلمی صنعت میں اسلام اور مسلمانوں کے متعلق منفی تاثر اور بیانیے کو درست کرنے کی خواہش پروان چڑھ رہی ہے کیونکہ بالآخر فلمسازی کاروبار ہے اور کاروبار کی کامیابی اسی میں ہے کہ بین الاقوامی مسلم ناظرین کے عقائد اور طرز زندگی کو درست انداز میں پیش کیا جائے۔
ایک فلم سیٹ پر غیر مسلم اداکاروں کو ایک سین کے لیے نماز کا طریقہ سکھانے کا واقعہ سناتے ہوئے ساجد وردا نے بتایا کہ ایک اداکار نے بعد میں آ کر انہیں کہا کہ ’جب میں (نماز کے دوران) اوپر نیچے اٹھ بیٹھ رہا تھا تو مجھے بہت سکون ملا۔‘
یو کے مسلم فلم تنظیم کے ساتھ ساتھ ساجد وردا نے پروڈکشن کمپنی بھی بنا رکھی ہے اور ماضی میں فلم اور ٹی وی میں اداکاری بھی کرتے رہے ہیں۔ ان کی کمپنی Rendition Films کے قابل ذکر کاموں میں ایوارڈ یافتہ امریکی فیچر فلم The Tiger Hunter اور برٹش کامیڈی The Chop شامل ہیں جسے 54 انٹرنیشنل ایوارڈز ملے۔
ساجد وردا کے بقول ان کے کام سے فلمی صنعت میں اسلام کی علم پھیل رہا ہے اور لوگوں کو اسلام کے ایسے قواعد و ضوابط پتہ چل رہے ہیں جن کا انہیں اندازہ نہیں تھا۔ ان کی کاوش ہے کہ لوگ ’آگے نکلنے کے لیے عقیدہ قربان نہ کریں۔ میں فلمسازوں کو کہتا ہوں کہ جو بھی کریں، اللہ کے سامنے کھڑے ہو کر اس کی وضاحت اور حساب خود دینے کے قابل رہیں۔‘
ایک کپ چائے کراسنگ کلچرز، انڈپینڈنٹ اردو کی لندن سے واڈکاسٹ ہے جس کا مقصد برطانیہ میں پاکستانی اور جنوبی ایشیائی نژاد شخصیات کی کامیابیوں کی داستانوں کو اجاگر کرنا ہے۔ واڈکاسٹ میں جنوبی ایشیائی نژاد برطانوی شہریوں کی ثقافتی شناخت کی بُنت پر ہلکی پھلکی گپ شپ کی جاتی ہے۔