الیکشن 2024 کی گہما گہمی میں اضافے کے ساتھ ہی فیصل آباد کے تاریخی گھنٹہ گھر سے ملحق امین پور بازار میں پرنٹنگ پریس کی دکانوں میں کام اور رش بڑھ رہا ہے۔
دکان داروں نے بھی اپنی دکانوں کے اندر اور باہر مختلف سیاسی جماعتوں کے جھنڈے، بینرز اور دیگر تشہیری مواد کے ڈھیر لگا رکھے ہیں تاکہ سیاسی جماعتوں کے حامیوں اور امیدواروں کی توجہ حاصل کی جا سکے۔
روایتی طور پر یہ بازار شہر میں شادیوں اور مہندی کی تقریبات میں استعمال ہونے والے آرائشی سامان کی فروخت کا سب سے بڑا مرکز ہے۔
تاہم الیکشن کا اعلان ہونے کے بعد سے یہاں ہر دکان سیاسی جماعتوں کے جھنڈوں، بیجز، مفلر اور دیگر تشہیری سامان سے بھری ہوئی ہے۔
امین پور بازار سے متصل پریس مارکیٹ اور اس سے چند فرلانگ کے فاصلے پر واقع عیدگاہ روڈ اور ملک روڈ سے متصل مارکیٹس میں موجود ڈیجیٹل پرنٹنگ اور ایڈورٹائزنگ کمپنیوں کے دفاتر میں مختلف سافٹ ویئرز کی مدد سے سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کے بینرز اور پوسٹرز کی تیاری کا سلسلہ جاری ہے۔
ملک روڈ پر واقع شائن فلیکس کے مالک بلال طفیل نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ 2005 سے اس کاروبار سے وابستہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’ان دنوں الیکشن کی وجہ سے کام زیادہ ہے کیونکہ الیکشن کا تشہیری مواد تیار ہو رہا ہے لیکن جس طرح گذشتہ سالوں میں یا 2018 اور 2013 کے الیکشن میں ہوتا رہا ہے اس طرح سے الیکشن میں رونق نہیں ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’اس کی بنیادی وجہ قیمتوں میں اضافہ ہے اس کے علاوہ لوگوں کی دلچسپی بھی کم ہے۔‘
بلال طفیل کا کہنا ہے کہ 2018 کے الیکشن میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتوں کی تعداد کم تھی لیکن کام زیادہ تھا جبکہ اس مرتبہ سیاسی جماعتوں کی تعداد زیادہ ہے لیکن کام کم ہے۔
بلال طفیل نے بتایا کہ ’بنیادی وجہ یہ ہے کہ مواد کے دام بہت زیادہ ہو چکے ہیں، کچھ ویسے بھی الیکشن کمیشن کی طرف سے سائز کے حوالے سے پابندی ہے۔ اس سے پہلے ایسے نہیں ہوتا تھا۔
’اس دفعہ ہمیں محدود ہو کر چلنا پڑ رہا ہے اور مخصوص سائز میں پرنٹنگ کرنی پڑ رہی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پرنٹنگ کی ٹیکنالوجی سے متعلق بلال طفیل نے بتایا کہ ’2018 کی نسبت 2024 کے الیکشن میں ایک فرق ضرور پڑا ہے کہ مشینری جدید ترین آ گئی ہے۔
’اگر پہلے ایک مشین ایک گھنٹے میں ایک ہزار مربع فٹ پرنٹ کرتی تھی، تو اب تین ہزار مربع فٹ پرنٹ ہو جاتا ہے۔ اس وقت بہت حد تک مصنوعی ذہانت سے ڈیزائننگ ہو رہی ہے۔
’پہلے ہمیں کمپیوٹر استعمال کر کے ڈیزائن بنانے پڑتے تھے اب بے شمار ویب سائٹس ہیں جن سے لوگ خود ڈیزائن بنا لیتے ہیں۔‘
اس حوالے سے بلال کہتے ہیں کہ مختلف سافٹ ویئر کی مدد سے کام میں آسانی آ گئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ’ سافٹ وئیر بھی اتنے نئے آ گئے ہیں کہ جہاں ہمیں ایک ڈیزائن بنانے میں آدھا گھنٹہ یا گھنٹہ لگتا تھا اب وہی ڈیزائن پانچ سے دس منٹ میں تیار ہو جاتا ہے۔
’ پہلے کپڑا تھا، ٹیکنالوجی اپ گریڈ ہوئی اور فلیکس آ گئے، پھر نان وون آ گئی۔ اب یو وی پرنٹنگ ہے جس کے ذریعے کسی بھی چیز پر آپ اپنا ڈیزائن پرنٹ کروا سکتے ہیں، چاہے وہ ایکریلک ہو یا پتھر، اس کے اوپر آپ اپنی مرضی کا ڈیزائن پرنٹ کروا سکتے ہیں۔‘
بلال کہتے ہیں کہ ’اس کام میں زیادہ تر خام مال بیرون ملک سے ڈالرز میں درآمد کیا جاتا ہے اس لیے جو چیز 2018 میں پانچ روپے کی تھی اس کی قیمت اب پندرہ روپے سے زیادہ ہو چکی ہے۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔