خیبر پختونخوا میں دریائے کابل کے کنارے واقع جی ٹی (گرینڈ ٹرنک) روڈ کے نقطہ آغاز ضلع نوشہرہ میں قومی اسمبلی کی دو نشستیں ہیں، جن میں سے این اے 33 شہر اور کنٹونمنٹ پر مشتمل ہے۔
این اے 33 نوشہرہ ون میں خیبر پختونخوا کے سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک آٹھ فروری کے انتخابات میں اپنی نئی جماعت پاکستان تحریک انصاف پارلمنٹیرینز کے پلیٹ فارم سے حصہ لے رہے ہیں۔
پرویز خٹک، جو ماضی میں سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کی وجہ سے جانے جاتے ہیں، نے نو مئی کے واقعات کے بعد سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی جماعت سے راہیں جدا کر لیں تھیں۔
ہم نوشہرہ کے تجارتی مرکز پہنچے تو وہاں کوئی انتخابی بینر نظر آیا نہ پوسٹر۔ کافی تلاش کے بعد حتیٰ کہ چھوٹا سا سٹیکر بھی نہیں دیکھا۔ ہم سوچ میں پڑ گئے کہ واقعی اس حلقے میں انتخابات ہو بھی رہے ہیں یا نہیں؟
عین بازار کے وسط میں گاڑی روک کر ایک دکاندار سے دریافت کیا کہ ’کیا یہاں کسی سیاسی جماعت نے بینرز اور پوسٹرز نہیں لگائے؟‘
دکاندار نے جواب دیا کہ ’یہ چھاؤنی کا علاقہ ہے، جہاں سیاسی جماعتوں کے پوسٹر یا بینر لگانے پر پابندی ہے۔‘
تب انتخابی پوسٹرز اور بینرز کی غیر موجودگی کی وجہ سمجھ آئی اور اس لیے ہم نوشہرہ کے ایک دوسرے علاقے کی طرف بڑھے، جہاں جگہ جگہ امیدواروں کے تصویروں، سیاسی جماعتوں کے جھنڈوں اور انتخابی نشانوں والے پوسٹر نظر آئے۔
ضلع نوشہرہ کے حلقہ این اے 33 میں، عمران خان کے ماضی میں قریبی ساتھی اور اب اپنی نئی جماعت کے سربراہ پرویز خٹک قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں کے لیے انتخابی میدان میں اترے ہوئے ہیں۔
ضلع نوشہرہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کا قریبی ضلع ہے، جہاں قومی اسمبلی کے دو حلقے ہیں اور انہی میں سے ایک حلقے (این اے 33 نوشہرہ ون) سے پرویز خٹک انتخابات میں حصہ لے رہے ہے۔
ایچیسن کالج لاہور کی ویب سائٹ پر موجود پرویز خٹک کی پروفائل کے مطابق انہوں نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز 1983 سے کیا، جب وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے ڈسٹرکٹ کونسل کے رکن منتخب ہوئے۔
پرویز خٹک نے 2008 کے انتخابات میں صوبے کے سابق وزیر اعلیٰ آفتاب احمد خان شیرپاؤ کی جماعت قومی وطن پارٹی (کیو ڈبلیو پی) کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی تھی۔
تاہم انہوں نے 2011 میں پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی اور 2013 کے انتخابات میں اسی جماعت کے ٹکٹ پر رکن خیبر پختونخوا اسمبلی منتخب ہوئےاور بعدازاں وزیر اعلیٰ بھی منتخب ہوئے۔
2018 کے انتخابات میں پرویز خٹک رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور ان کو عمران خان کی کابینہ میں وزیر دفاع بنایا گیا۔
آٹھ فروری کے انتخابات میں پرویز خٹک قومی اسمبلی کی نشست کے علاوہ صوبائی اسمبلی کے لیے بھی الیکشن لڑ رہے ہیں، جب کہ ان کے ہی خاندان سے تعلق رکھنے والے عمران خٹک نوشہرہ ہی کی دوسری قومی اسمبلی کی نشست این اے 34 نوشہرہ دو میں امیدوار ہیں۔
پرویز خٹک نے نوشہرہ سے خیبر پختونخوا اسمبلی کی نشستوں کے لیے بھی اپنی جماعت کی جانب سے اپنے خاندان سے تعلق رکھنے والے امیدواروں کو کھڑا کیا ہوا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو نے نوشہرہ کے اس حلقے میں جاننے کی کوشش کی ہے کہ کیا پرویز خٹک کی پارٹی عمران خان کی پی ٹی آئی کے ووٹ بینک کو خراب کر سکتی ہے؟
عام تاثر یہی ہے کہ پرویز خٹک کی جماعت نوشہرہ میں عمران خان کے ووٹ بینک پر اثرانداز ہو سکتی ہے کیونکہ نئی جماعت میں سابق وزیر اعظم کی پارٹی کے سابق اراکین خیبر پختونخوا اسمبلی کی بڑی تعداد شامل ہو چکی ہے۔
پرویز خٹک کی پی ٹی آئی پی نے صوبے میں قومی اسمبلی کے 45 میں سے صرف 17 حلقوں میں امیدوار کھڑے کیے ہیں، جبکہ صوبائی اسمبلی کی 115 نشستوں میں سے 73 حلقوں میں آٹھ فروری کے انتخابات میں حصہ لے رہی ہے۔
قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 33 نوشہرہ ون میں ضلع نوشہرہ کی تحصیل جہانگیرہ کے علاوہ نوشہرہ چھاؤنی اور نوشہرہ کے تحصیل کے کچھ علاقے بھی شامل ہیں۔
عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) بھی ماضی کے انتخابات میں اس حلقے سے کامیابی حاصل کر چکی ہے، جب کہ 2002 میں یہاں متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کامیاب رہی تھی۔
پرویز خٹک 2002 کے انتخابات سے قبل اس ضلع نوشہرہ سے صرف صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لیے میدان میں اترتے رہے ہیں، جب کہ 2018 میں پہلی مرتبہ انہوں نے قومی اسمبلی کے لیے قسمت آزمائی اور کامیاب رہے تھے۔
حلقے کی عوام کیا کہتی ہے؟
این اے 33 نوشہرہ ون کے علاقے نوشہرہ کلاں سے تعلق رکھنے والے انیس احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انتخابات کی تیاریاں شروع ہیں اور تمام سیاسی جماعتیں جیتنے کے لیے کوششیں کر رہی ہیں۔
تاہم انیس کے مطابق پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدوار اختیار ولی اور پی ٹی آئی پی کے پرویز خٹک اور پی ٹی آئی کے امیدوار محمد عمر کے مابین ٹکر کا مقابلہ متوقع ہے۔
انیس احمد سے جب پوچھا گیا کہ پرویز خٹک کی وجہ سے پی ٹی آئی کے ووٹ خراب ہوسکتے ہیں؟ تو ان کا کہنا تھا کہ پرویز خٹک کا اپنا ووٹ بینک بھی موجود ہے، لیکن ماضی میں انہیں جو ووٹ ملا تھا اس کی وجہ عمران خان تھے۔
انیس احمد کے مطابق پرویز خٹک کی سپورٹ اس وجہ سے بھی موجود ہے کہ انہوں نے سیلاب سے بچنے کے لیے دریائے کابل پر حفاظتی پشتے تعمیر کروائے تھے، جس سے علاقے میں سیلاب سے ہونے والے نقصانات میں کمی ہوئی۔
انتخابات کی گہما گہمی میں کمی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ماضی کی نسبت انتخابی سرگرمیاں کم ہیں جس کی وجہ ایک سیاسی جماعت کو مہم کی وہ آزادی حاصل نہیں جو ہونی چاہیے۔
محمد الیاس کا تعلق بھی اسی حلقے سے ہے اور ان کے مطابق ان کو کوئی امید نہیں ہے کہ پرویز خٹک اس مرتبہ جیت سکتے ہیں تاہم انہیں کچھ سپورٹ ضرور حاصل ہے، جب کہ این اے 33 میں مسلم لیگ ن کے اختیار ولی اور عوامی نیشنل پارٹی کا بھی اپنا ووٹ بینک ہے۔
الیاس نے بتایا کہ ’پرویز خٹک کا یہاں پر اپنا ووٹ نہیں ہے بلکہ وہ اس پارٹی میں جاتے ہیں جہاں ان کو پتہ ہو کہ وہ جیت سکتے ہیں۔
’لیکن اس مرتبہ پتہ چلے گا کہ وہ جیت سکتے ہیں یا نہیں۔ جبکہ پی ٹی آئی کی بات کی جائے تو حالات کی وجہ سے تو وہ ختم ہو چکی ہے۔‘
یاد رہے کہ اس حلقے میں پرویز خٹک کا مقابلہ سابق رکن صوبائی اسمبلی اختیار ولی کے ساتھ بھی ہے جو اسی حلقے سے صوبائی اسمبلی سے انتخابات میں حصہ لے کر جیت چکے ہیں جبکہ حلقے میں عوامی حلقوں کے مطابق جمیعت علمائے اسلام ف اور عوامی نیشنل پارٹی کے اپنے اپنے ووٹ بینک بھی موجود ہیں۔
کیا پی ٹی آئی پی، پی ٹی آئی کو ٹف ٹائم دے سکتی ہے؟
لحاظ علی پشاور میں مقیم صحافی ہیں اور سیاسی جماعتوں کے معاملات پر گہری نظر رکھتے ہے۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پرویز خٹک نے نئی جماعت ان کا اپنا ووٹ بینک کیش کرنے کے لیے بنائی ہے۔
لحاظ علی کے مطابق: ’پرویز خٹک سمجھتے تھے کہ اگر پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان جیل میں ہوں گے، تو پی ٹی آئی بغیر سربراہ کے رہ جائے گی اور اسی طریقے سے وہ پی ٹی آئی کا ووٹ حاصل کر سکیں گے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم لحاظ سجھتے ہیں کہ ’خیبر پختونخوا کی سیاست دیگر صوبوں سے قدرے مختلف ہے کیونکہ اس صوبے میں ووٹ برادری کو نہیں بلکہ پارٹی کو دیا جاتا ہے اور ماضی میں ہم نے دیکھا ہے۔ تو پرویز خٹک نے بھی یہ پارٹی خیبر پختونخوا تک محدود رکھی ہے۔‘
لحاظ علی نے بتایا کہ ’ماضی میں بھی ایسی جماعتوں کو بنتے دیکھا گیا ہے جو صرف انتخابات کے لیے بنائی جاتی ہیں۔ 50 کی دہائی میں ڈاکٹر خان صاحب (خان عبدالجبار خان) نے پارٹی بنائی تھی اور وہ بھی اسی طریقے سے بنائی گئی تھی۔ مسلم لیگ ق بھی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے بنائی گئی تھی لیکن اب یہ برائے نام پارٹی ہے۔‘
کیا پرویز خٹک پی ٹی آئی کا مقابلہ کر پائیں گے؟ سوال کے جواب میں لحاظ علی نے بتایا کہ ایسا لگ رہا ہے کہ شاید پی ٹی آئی کے کچھ اراکین آزاد حیثیت سے پی ٹی آئی کے نام پر انتخابات میں حصہ لیں گے اور بعد میں پرویز خٹک کے ساتھ مل جائیں گے۔
’پرویز خٹک کی بھی کوشش ہو گی کہ وہ صوبے میں حکومت بنا سکیں۔‘
پشاور پریس کلب کے صدر اور سینیئر صحافی ارشد عزیز ملک نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ پرویز خٹک نے پارٹی تو بنا لی ہے لیکن وہ عوامی لیڈر نہیں ہیں۔ ’بلکہ وہ صرف سیاسی جوڑ توڑ کے ماہر ہیں۔‘
ارشد عزیز ملک کے مطابق؛ ’یہ ضرور ہے کہ پی ٹی آئی کا ووٹ تقسیم ہو سکتا ہے اور اس کا فائدہ کسی تیسری جماعت کو جائے گا جبکہ یہ بھی دیکھا جائے گا کہ پی ٹی آئی کو کیا لیول پلیئنگ فیلڈ ملتی ہے یا نہیں۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔