پاکستان کے بڑے سیاستدانوں نے سعودی عرب کی جانب سے اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو کے اُس منصوبے کی مذمت کا خیرمقدم کیا ہے، جس کے تحت اسرائیلی وزیراعظم نے دوبارہ انتخاب کی صورت میں مغربی کنارے میں واقع وادی اردن کو اسرائیل میں ضم کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔
اسرائیل میں انتخابات 17 ستمبر 2019 کو ہوں گے۔ وزیراعظم نتن یاہو نے اپنے متنازع بیان میں کہا ہے کہ اسرائیل پورے مغربی کنارے میں واقع اسرائیلی بستیوں کو اپنا حصہ بنائے گا۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی رہنما اور سابق سینیٹر سحر کامران نے عرب نیوز سے گفتگو میں کہا کہ سعودی عرب کا ٹھوس اور واضح موقف اختیار کرتے ہوئے اسرائیلی وزیر اعظم کے بیان کی مذمت کرنا قابلِ ستائش ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کو اس معاملے پر اسلامی تعاون تنظیم کا ہنگامی اجلاس طلب کرنا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بھارت کی جانب سے جموں و کشمیر کو اپنا حصہ بنانے کے اقدام کی طرح اردن کے علاقے میں اسرائیلی بستیاں بسانا بین الاقوامی قانون کے مطابق غیر قانونی ہیں۔ ’ہم اس قسم کے انضمام پر اسلامی دنیا کی جانب سے محض علامتی رد عمل دیکھ رہے ہیں جس کی وجہ سے خطرناک ایجنڈے کی تکمیل میں اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو کے ساتھ ساتھ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا حوصلہ بھی بڑھا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اسرائیلی وزیر اعظم کو امریکی حمایت حاصل ہے جس کی بدولت انہیں اپنے مذموم عزائم کو عملی شکل دینے کا حوصلہ ملا ہے۔‘
دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ (ن)کے سینیٹر ڈاکٹر اسد اشرف نے کہا کہ ’ہم سعودی حکومت کی جانب سے اسرائیلی وزیراعظم کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے اس کی مذمت کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ پاکستان کو بھی او آئی سی کے مجوزہ اجلاس میں سعودی عرب کے موقف کی حمایت کرنی چاہیے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا کہ ’پاکستان او آئی سی کے اجلاس میں سعودی عرب کی مدد سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی صورت حال پر بھی آواز اٹھائے۔‘
پاکستان کے سرکردہ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل اور بھارت کی جانب سے دوسروں کے علاقوں کو اپنے ملک کا حصہ بنانے کی کارروائی ایک جیسی ہے۔
سیاسی تجزیہ کار اور مصنف زاہد حسین نے اس معاملے پر کہا کہ ’اسرائیل نے وادی اردن کو اپنا حصہ بنانے کی منصوبہ بندی پہلے سے کر رکھی ہے۔ مغربی کنارے میں یہودی بستیوں میں توسیع کے ساتھ انہیں اسرائیل کا حصہ بنانے کا عمل ٹرمپ انتظامیہ کی خفیہ حمایت سے پہلے سے جاری ہے اور نتن یاہو اس انضمام کو رسمی شکل دینا چاہتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اصل میں بھارت نے اپنے زیرِ انتظام کشمیر کے انضمام میں اسرائیلی مثال کی پیروی کی ہے۔ دونوں ملکوں کی جانب سے انضمام کا عمل بہت ملتا جلتا ہے۔ مسلم دنیا نے کئی سال میں بڑھتی ہوئی اسرائیلی توسیع پر خاموشی اختیار کی اور ایک منقسم برادری زیادہ کچھ نہیں کر سکتی۔‘
دوسری جانب لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز میں سیاسیات کے پروفیسر رسول بخش رئیس نے مغربی کنارے اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے معاملے کو ایک جیسا قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دونوں صورتوں میں مسلم اکثریتی علاقوں کو قابض ملکوں نے اپنا حصہ بنایا ہے۔ بھارت اور اسرائیل جغرافیائی حد بندی میں گڑ بڑ کرکے مقامی آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت اسرائیل اور بھارت کے درمیان ایک بات مشترک ہے کہ دونوں ملکوں میں حکمران جماعتیں انتہاپسندی، جارحیت اور قوم پرستی کے نظریات کو فروغ دینے میں مصروف ہیں اور ایک طویل عرصے سے مسلمان مخالف جذبات کو ہوا دی جا رہی ہے۔