پاکستان کے دورے پر آئے ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبد اللہیان اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے پیر کو ایک ملاقات میں مشترکہ طور پر دہشت گردی سے نمٹنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق ایرانی وزیر خارجہ نے آج راول پنڈی میں جی ایچ کیو میں جنرل عاصم منیر سے ملاقات کی۔
آئی ایس پی آر کے بیان میں کہا گیا کہ پاکستان اور ایران کے درمیان تاریخی، مذہبی اور ثقافتی تعلقات کا ادراک کرتے ہوئے فریقین نے دوطرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے اور ایک دوسرے کے خدشات کی زیادہ سے زیادہ تفہیم کے فروغ دینے پر زور دیا۔
آرمی چیف نے دوسرے ملک کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام کرنے پر زور دیتے ہوئے اسے مقدس، مداخلت سے مبرا اور ریاست کے ریاست کے ساتھ تعلقات کا سب سے اہم جزو قرار دیا۔
بیان کے مطابق فریقین نے کہا کہ دہشت گردی مشترکہ خطرہ ہے جس سے مشترکہ کوششوں، بہتر رابطے اور خفیہ معلومات کے تبادلے کے ذریعے نمٹنے کی ضرورت ہے۔
آرمی چیف نے سلامتی کے خدشات کو دور کرنے کے لیے مستقل رابطے اور دستیاب مواصلاتی ذرائع کو استعمال کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
’فریقین نے مشترکہ خطرات کے خلاف ردعمل کی ہم آہنگی اور کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے ایک دوسرے کے ملک میں فوجی رابطہ افسروں کی تعیناتی کے طریقہ کار کو جلد از جلد عملی شکل دینے پر اتفاق کیا۔‘
بیان میں مزید کہا گیا: ’فریقین نے قریبی رابطے میں رہنے کے عزم کا اعادہ کیا اور کہا کہ کسی کو بھی دو برادر ملکوں کے درمیان اختلافات پیدا نہیں کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
’فریقین کا کہنا تھا کہ پاکستان اور ایران برادر ہمسایہ ممالک ہیں اور دونوں کی قسمت ایک دوسرے ساتھ وابستہ ہے۔
’فریقین نے سرحدی علاقے میں امن، استحکام اور خوشحالی کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کیا جسے دونوں اطراف کے لوگوں کی فلاح و بہبود کی خاطر ناگزیر ضرورت کے طور پر شناخت کیا گیا تھا۔
اس سے قبل مہمان وزیر خارجہ نے آج اسلام آباد میں اپنے پاکستانی ہم منصب جلیل عباس جیلانی سے ملاقات کے بعد ایک مشترکہ نیوز کانفرنس کی۔
انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں پاکستان اور ایران کے مشترکہ سرحدی خطے اور ایرانی اور پاکستانی علاقوں میں دہشت گرد موجود ہیں جنہیں تیسرے ملک کی مدد و قیادت حاصل ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ اُن کا ملک پاکستان کے ساتھ قریبی برادرانہ تعلقات کو نہایت اہمیت دیتا ہے اور دونوں ملک ایک دوسرے کی سرحدی اور علاقائی خودمختاری کا احترام کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستانی وزیر خارجہ سے ملاقات میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ ’ایران اور پاکستان دہشت گردوں کو یہ اجازت نہیں دیں گے کہ وہ ہماری سکیورٹی کو خطرے سے دوچار کریں۔‘
حسین امیر عبداللہیان نے کہا کہ ایرانی صدر کے جلد از جلد پاکستان کا دورہ کرنے کی کوشش کریں گے۔
پاکستان کے نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے کہا کہ ایران اور پاکستان دوست ہمسایہ ملک ہیں، ایران سے دیرینہ ثقافتی، مذہبی اور برادرانہ تعلقات ہیں، مضبوط تعلقات دونوں ممالک کی ترقی کے لیے اہم ہیں۔
پاکستانی وزیر خارجہ نے کہا کہ دہشت گردی دونوں ملکوں کی مشترکہ دشمن ہے اور اس کا مل کر مقابلہ کیا جائے گا۔ اس پر دونوں ملکوں کی جانب سے اتفاق کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایرانی وزیر خارجہ سے ملاقات کے دوران باہمی مفاد کے مختلف امور پر بات چیت ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ مضبوط تعلقات دونوں ممالک کی ترقی کے لیے اہم ہیں، ایران سے تعلقات اور مختلف شعبوں میں تعاون کو وسعت دینےکا خواہاں ہے، دہشت گردی کے خلاف مشترکہ کارروائی کی ضرورت ہے۔
جلیل عباس جیلانی نے کہا کہ دونوں ممالک سیاسی اور سیکیورٹی مسائل حل کرنے میں سنجیدہ ہیں، دہشت گردی دونوں ممالک کے لیے ایک خطرہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملکی سلامتی اور خودمختاری کا احترام اولین ترجیح ہے، ہم سرحدوں پر معاشی مواقع پیدا کرنے کے خواہاں ہیں، پاکستان اور ایران کے درمیان گہرا اور مضبوط سفارتی تعلق ہے۔
جلیل عباس جیلانی کی دعوت پر سوموار کو علی الصبح پاکستان پہنچنے والے ایرانی وزیر خارجہ ایک روزہ دورہ مکمل کر کے آج رات واپس چلے گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دفتر خارجہ کے بیان میں مزید بتایا گیا کہ ایرانی وزیر خارجہ کے استقبال کے لیے افغانستان اور مغربی ایشیا کے لیے ایڈیشنل فارن سیکرٹری رحیم حیات نور خان ایئربیس پر موجود تھے۔
اپنے دورہ پاکستان سے قبل ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے اتوار کو کہا تھا کہ ’ایران اس بات پر پختہ یقین رکھتا ہے کہ اچھا ہمسایہ ملک بن کر سلامتی کا مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے۔‘
ایران کے سرکاری خبر رساں ادارے ارنا کے مطابق وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے کہا کہ ’ہم دشمنوں کو خطے میں دوستی، امن اور سلامتی کو نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دیں گے۔‘
ان کا بیان ایسے وقت پر آیا جب ایک روز قبل (یعنی ہفتے کو) ایران کے جنوب مشرقی صوبے سیستان بلوچستان کے شہر سراوان کے مضافاتی علاقے میں مسلح افراد نے کم از کم نو پاکستانی شہریوں کو قتل اور تین کو زخمی کر دیا۔
ایران اور پاکستان کے درمیان حالیہ کچھ عرصے سے تعلقات میں اتار چڑھاؤ دیکھا گیا ہے۔
16 جنوری کو پاکستان کے دفتر خارجہ نے بتایا کہ ایران نے اس کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی، جس کے نتیجے میں دو بچے جان سے گئے اور تین زخمی ہوئے۔
اس پر پاکستان نے ایران سے اپنا سفیر واپس بلانے کا اعلان کیا تھا جبکہ جمعرات 18 جنوری کو پاکستان نے ایران کے اندر واقع دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کا اعلان بھی کیا۔
بعد میں دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان حالات اس وقت بہتر ہوئے جب پاکستانی وزارت خارجہ نے 22 جنوری کو ایک اعلامیے میں بتایا کہ دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کے درمیان ٹیلی فون پر رابطے کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ اسلام آباد اور تہران کے سفیر 26 جنوری سے اپنی پوزیشن پر واپس کام شروع کر سکیں گے۔
ایران میں نو پاکستانیوں کے قتل پر پاکستان نے ایران سے واقعے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ ایران نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔