پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں صدیوں سے آباد ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے شہریوں کو ملک کی پارلیمان میں صرف مذہبی اقلیتیوں کے لیے مخصوص نشستوں کے ذریعے ہی نمائندگی حاصل ہو سکتی ہے۔
دوسرے صوبوں کی طرح بلوچستان میں بھی کسی سیاسی جماعت نے کبھی ہندو یا کسی دوسرے اقلیتی مذہب سے تعلق رکھنے والے پاکستانی شہریوں کو جنرل نشستوں پر قومی یا صوبائی اسمبلیوں کے لیے براہ راست انتخابات لڑنے کی غرض سے ٹکٹ جاری نہیں کیا۔
پاکستان کے وجود میں آنے سے قبل بلوچستان کے خصوصاً دیہی علاقوں میں پھیلے ہوئے ہندو شہری اب ایک چھوٹے سے علاقے تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔
محکمہ شماریات سے حاصل کردہ اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان میں 45 ہزار 627 ہندو شہری آباد ہیں، جو بلوچستان کی روایات کے مطابق پر امن زندگی بسر کر رہے ہیں۔
2018 کے انتخابات میں مذہبی اقلیتوں کی مخصوص نشست پر کامیاب ہونے والے رکن بلوچستان اسمبلی مکھی شام لعل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’بلوچستان میں ایک سرداری اور نوابی نظام ہے اور اقلیت برادری میں اتنی جرات نہیں کہ کسی قبائلی شخص کا انتخابات میں مقابلہ کر سکے۔‘
انہوں نے کہا کہ انہیں اقلیتی نشستوں پر منتخب ہونا پسند نہیں ہے کیونکہ ایسے اراکین اسمبلی کو سیکنڈ کلاس رکن تصور کیا جاتا ہے۔
’ہم اقلیتی برادری امن پسند لوگ ہیں۔ کسی جھگڑے میں شریک نہیں ہونا چاہتے۔ ہمیں مخصوص نشستوں پر نمائندگی کرنا اچھا محسوس نہیں ہوتا ہے ایسا لگتا ہے جیسے ہم مخصوص نشستوں والے ایم پی اے سیکنڈ کلاس ایم پی اے ہیں۔‘
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’دوسرے صوبوں کی نسبت بلوچستان میں سیاسی جماعتیں مذہبی اقلیتوں کو زیادہ اہمیت دیتی ہیں۔‘
انہوں نے تجویز پیش کی کہ بجائے مضصوص نشستوں کے مذہبی اقلیتوں کے لیے ایک حلقہ مختص کر دیا جائے جہاں ان کے نمائندے انتخابات لڑ کر اپنے لوگوں کی خدمت کریں اور اس طرح وہ زیادہ پراعتماد محسوس بھی کریں گے۔
’میں نے کئی مرتبہ بلوچستان اسمبلی میں کہا کہ مذہبی اقلیتوں کے لیے ہر ڈویژن کی سطح پر نشستیں مختص کی جائیں، جن پر صرف اقلیتی نمائندے انتخابات میں حصہ لیں اور ان کے لیے صرف مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے شہری حق رائے دہی استعمال کر سکیں۔ لیکن اس متعلق قانون سازی نہیں ہو سکی۔‘
جمعیت علما اسلام ف سے تعلق رکھنے والے بلوچستان اسمبلی کے سابق رکن مکھی شام لعل کا کہنا تھا کہ وہ ان کی تمام برادری کے لیے بغیر کسی فرق کے کام کرتے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ ن کے خضدار میں اقلیتی ونگ کے صدر اور قومی اسمبلی کی مخصوص نشست کے امیدوار جگدیش چند کہتے ہیں کہ ’جدا گانہ انتخابات کرانا لازمی ہے موجودہ انتخابی طریقہ میں اقلیتوں کی حق تلفی ہو رہی ہے۔ ہم اقلیتوں کو موجودہ انتخابی نظام سے شکوہ ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’مذہبی اقلیتوں کے لیے انتخابات کا ایسا نظام بنایا جائے جس میں اقلیت ووٹرز صرف اقلیتی امیدواروں کے لیے ووٹ کریں اور مقابلہ اقلیتی امیدواروں کے درمیان ہی ہو۔‘
مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے خضدار کے سابق کونسلر اور سماجی کارکن شکیل مسیح نے انتخابات کے دوران ووٹ ڈالنے کے لیے امیدواروں کی جانب سے دھمکیاں موصول ہونے کا الزام لگایا۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ سات دہائیوں سے ان کا خاندان خضدار میں آباد ہے لیکن ان کے مسائل جوں کے توں موجود ہیں۔
شکیل مسیح کا کہنا تھا کہ اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے ڈومیسائل اس لیے نہیں بنائے جاتے کہ ان کا مستقل ایڈریس کسی دوسرے صوبے سے ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مقامی نمائندوں نے کبھی ان کے مسائل پر توجہ نہیں دی جب کہ پورے صوبے میں مسیحی برادری کا ایم پی اے ہے، جن کے لیے پاکستان کے رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے میں رہنے والی مسیحی برادری کے مسائل حل کرنا ممکن نہیں۔
’ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے لیے جداگانہ انتخابات ہوں، جیسے اس سے قبل ہوا کرتے تھے کیونکہ ہم موجودہ انتخابات سے مایوس ہیں۔‘
ایک مسیحی شہری نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا: ’ہمارے محلے کے دورے کے موقع پر اکثریتی ایم پی اے کے باڈی گارڈز داخل ہوتے ہی آواز لگایا کہ کس اقلیتی کی جرات ہے کہ ہمارے لیڈر کو ووٹ نہ دے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اس واقعہ کو میں کبھی بھول نہیں سکتا۔ جب بھی میں ووٹ ڈالتا ہوں تو یہ واقعہ مجھے یاد آتا ہے اور اس سے مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ہم اقلیت برادری ہیں اور اکثریتی کے امیدوار زور زبردستی ہم سے ووٹ لیتے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر کوئی اقلیتی رہنما ہوتا جس کو میں ڈائریکٹ ووٹ کرتا تو یہ تمام اقلیتی برادری کے لیے بہتر ہوتا اور ایسا صرف جدا گانہ انتخابات سے ممکن ہے۔
محکمہ شماریات کے مطابق قلات ڈیژن میں ہندو کمیونٹی کے 14 ہزار سے زیادہ لوگ رہائش پزید ہیں۔
خضدار میں شاہی باغ کے مقام پر ہندو محلے میں اس مذہب سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں خاندان آباد ہیں، جس کی آبادی تقریباً پانچ ہزار ہے۔
خضدار کے ہندو محلے میں بڑا مسئلہ تعلیم کا ہے، جہاں صرف ایک شام کا پرائمری سکول ہے، جو اہل علاقہ کے مطابق اکثر بند رہتا ہے۔
گریجویشن کرنے والے ساگر کمار کا کہنا تھا کہ سرکاری ملازمتوں میں اقلیتوں کے لیے مختص پانچ فیصد ملازمت کے کوٹے پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔
انہوں نے کہا کہ مذہبی اقلیتوں کی مؤثر نمائندگی نہ ہونے کی وجہ سے مسائل جوں کے توں ہیں بلکہ ان میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
’ہم اپنے حلقے سے منتخب اکثریتی نمائندے کے پاس جاتے ہیں تو وہ ہمارے لیے ترقیاتی کام کرنے کو تیار نہیں ہوتے اور اگر ہم اپنے اقلیتی نمائندے کو کامیاب بناتے ہیں تو وہ ہمارے مسائل آسانی سے سمجھ کر حل کر سکتا ہے۔‘
مخصوص نشست پر کامیاب سابق ایم پی اے شام لعل نے بتایا کہ ہندو برادری کے لیے بلوچستان میں مخصوص مسائل نہیں ہیں بلکہ یہ تمام وہ مشکلات ہیں جو اکثریتی مذہب سے تعلق رکھنے والے شہریوں کو بھی درپیش ہیں۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔