ٹینس کے بے مثال کھلاڑی بنی آسٹن کے ومبلڈن میں شارٹس پہننے کے فیصلے کے تقریباً ایک صدی بعد کیا ایک اور کھیل میں ایسا ہونا ممکن ہے جو اپنے سفید یونیفارم کی وجہ سے معروف ہے؟
موسمیاتی تبدیلی کے کرکٹ پر اثرات کے حوالے سے سپورٹس سائنسدانوں اور ماہرین کی ایک اہم رپورٹ کے مطابق کھلاڑیوں کی حفاظت کو مدنظر رکھتے ہوئے کرکٹ کو بھی اہم تبدیلیاں لانی ہوں گی۔
اسی حوالے سے پیش کی جانے والی ایک نمایاں تجویز میں کہا گیا ہے کہ کھلاڑی میدان میں پاجاموں کے بجائے شارٹس پہنیں۔ ’ہٹ فار سکس‘ رپورٹ کے ایک لکھاری نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ یہ اقدام ناگزیر ہے۔
یونیورسٹی آف پورٹ سمتھ کے ایکسٹریم انوائرمنٹس لیبارٹری کے پروفیسر مائیک ٹپٹن کہتے ہیں: ’ہم کوشش کر رہے ہیں کہ لوگوں کو اس بات کا احساس کرایا جا سکے کہ موسمیاتی تبدیلی معدومی کے خطرے جیسا مسئلہ ہے۔ کوئی بھی چیز جو بلے باز، بولروں یا وکٹ کیپروں پر تپش کا بوجھ کو کم کرے گی وہ انہیں بہتر کارکردگی دکھانے میں مددگار ہو سکتی ہے۔‘
انہوں نے تپش کے بوجھ کم کرنے کے لیے بہتر ہیلمٹ بنانے اور بھاری لیگ پیڈز میں ٹھنڈک کا نظام رکھا جانے کی تجویز بھی دی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا: ’یہ کھلاڑیوں کے لیے ایک بہترین طوفان کی طرح ہے۔ وہ میدان کے درمیان کسی سائے کے بغیر موجود رہتے ہیں اور ہزاروں واٹس فی میٹر پر مبنی سورج کی روشنی کو برداشت کرتے ہیں۔ وہ لوگوں کے اندازے سے زیادہ مشکل کا سامنا کرتے ہیں خاص طور پر بلے باز جو اوسطاً آٹھ کلو میٹر فی گھنٹے کی رفتار سے بھاگ رہے ہوتے ہیں۔ وہ ماحول کی گرمی اور اپنے جسم میں کثرت سے پیدا ہوتی اور بڑھتی گرمی کا سامنا کرتے ہیں اور اس سب کے اوپر ان کو ٹوپی، کپڑے، پیڈنگ اور ہیلمٹ پہننا ہوتا ہے۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ مستقبل میں کھلاڑیوں کے لیے شارٹش پہننا ناگزیر ہو گا تو ان کا کہنا تھا: ’جی، میں یہی سوچتا ہوں۔‘
پروفیسر مائیک ٹپٹن نے کہا: ’جب تک کچھ بدلے گا نہیں تب تک تماشائیوں کے لیے بھی دلچسپی نہیں بڑھے گی۔ کھلاڑیوں کی کارکردگی بھی خراب ہوتی رہے گی۔ جو بھی گرمی کے باوجود کچھ کرنے کی کوشش کرے گا تو اسے محسوس ہو گا کہ اس کے پاس ایسا کرنے کا جذبہ، صلاحیت اور کارکردگی کا وہ معیار جو ہدف حاصل کرنے کے لیے چاہیے ختم ہو رہا ہے۔ اور اس کے نتیجے میں کرکٹ میں لی جانے والی دلچسپی بھی ختم ہوتی جائے گی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
2017 میں انگلینڈ کے کپتان جو روٹ کو سڈنی میں کھیلے جانے والے میچ کے دوران ڈی ہائیڈریشن کی وجہ سے اس وقت میچ سے باہر ہونا پڑا تھا جب درجہ حرارت 43 ڈگری تک جا پہنچا تھا۔
اس ہفتے شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق جیسے جیسے کرکٹ کھیلنے والے ممالک میں موسم مزید شدت اختیار کرتا جا رہا ہے ویسے ویسے بلے باز اور وکٹ کیپرز کی کارکردگی پر بھی اثر پڑ رہا ہے۔
لکھاریوں کی اہم تجاویز یہ تھیں کہ دنیا میں بڑھتی گرمی کے باعث کھیلوں کے مقابلون کو دن میں درجہ حرارت کم ہونے کے وقت تک موخر کرنا پڑ جائے گا۔
لیڈز یونیورسٹی کے پریسٹلی موسمیاتی تبدیلی مرکز کے ماہر پروفیسر پیرز فوسٹر نے بھی اس رپورٹ پر کام کیا ہے۔ انہوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’شارٹس پہننا ایک ایسی تبدیلی ہے جس کو میں دیکھنا چاہوں گا۔ یہ بولرز کے لیے مددگار ہوگا اور اس سے ایسا دکھائی دے گا کہ یہ کھیل موسمیاتی تبدیلی کو سنجیدگی سے لے رہا ہے۔ اس سے مداح بھی اس جانب متوجہ ہوں گے۔ موسمیاتی تبدیلی کہیں نہیں جا رہی اور ہمیں ایک گرم دنیا میں رہتے ہوئے دھویں کے کم سے کم اخراج کو بیک وقت ممکن بنانا ہوگا۔‘
موسمیاتی تبدیلی کے کنسلٹنٹ ڈومینک گوگنز بھی اس رپورٹ پر کام کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’میرے خیال میں شارٹس کے حوالے سے تجاویز پر بہت اچھی گفتگو ہوئی ہے۔‘
انہوں نے کہا: ’ایسا ہوتا ہے یا نہیں (یہ طے کرنا کرکٹ کی تنظیموں کا کام ہے)، لیکن ہم اس بارے میں بہت واضع سوچ رکھتے ہیں کہ ہر ملک کو اپنے حساب سے ٹھوس خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے موثر انداز اپنانا چاہیے۔ اور پھر وہ کرکٹ پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے مطابق ہی ان علاقوں میں مناسب انتظامات کر سکیں گے جن کے وہ ذمہ دار ہیں۔‘
گوگنز کہتے ہیں کے شارٹس صرف ایک تجویز تھی، اس کے علاوہ درجہ حرارت کے ایک مخصوص سطح سے اوپر جانے پر کھلاڑیوں کو کھیلنے سے روک دینا جیسے ٹینس میچ کے دوران بارش سے کھیل رک جاتا ہے۔ یہ بھی موسمیاتی تبدیلی ظاہر کرنے والی ایک ’سنجیدہ علامت‘ ہو سکتی ہے۔
لارڈز کرکٹ گراونڈ کے سسٹینابلٹی مینیجر اور برٹش ایسوسی ایشن فار سسٹین ایبل سپورٹ رسل سیمیور نے اس رپورٹ کا پیش لفظ لکھا ہے۔
ان کا کہنا تھا: ’یہ صرف کرکٹ ہی نہیں باقی تمام کھیلوں کے لیے بھی ایک ویک اپ کال ہے۔ ہر وہ کھلاڑی جو اس سے گزر رہا ہے۔ وہ شائقین جو بڑھتی مشکلات میں اپنے روز مرہ کے کام کرتے ہیں اور اپنے کام پر جاتے ہیں۔ کھلاڑی فطری طور پر صرف تماشائی نہیں ہیں اور ہمیں ہماری طرف بڑھنے والے اس بحران سے بچاؤ کے لیے کچھ کرنا ہو گا۔ لارڈز میں ہم سو فیصد ری نیو ایبل ونڈ انرجی پیدا کرنے کے سفر پر رواں دواں ہیں لیکن ہم سب اس حوالے سے بہت کچھ کر سکتے ہیں۔‘
© The Independent