انڈیا میں کیرالہ میڈیا اکیڈمی نے اعلان کیا ہے کہ فلسطینی صحافی وائل الدحدوح کو ان کی غیر معمولی پیشہ ورانہ جرات کے اعتراف میں اکیڈمی کی طرف سے صحافت کے میدان میں پرسن آف دی ایئر ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔
الجزیرہ ٹیلی ویژن کے غزہ میں بیورو چیف الدحدوح اکتوبر سے محصور علاقے میں اسرائیلی حملوں اور ان میں ہونے والی اموات کی رپورٹنگ کر رہے ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق الدحدوح ہمت کی علامت بھی بن چکے ہیں کیوں کہ وہ بے پناہ ذاتی نقصان اٹھانے کے باوجود غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی رپورٹنگ کرنے میں مصروف ہیں۔
جنوبی انڈین ریاست کیرالہ کی حکومت کے اعلیٰ تعلیمی ادارے کیرالہ میڈیا اکیڈمی نے کہا ہے کہ اس نے انویسٹی گیٹیو جرنلسٹس ایسوسی ایشن اور میڈیا میگزین ایڈیٹوریل بورڈ کی سفارش پر الدحدوح کو سال کا بہترین صحافی قرار دیا۔
اکیڈمی کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’الدحدوح صحافت کے میدان میں جرأت کی عالمی سطح پر علامت ہیں‘ جو اپنے اہل خانہ کو پہنچنے والے بھاری نقصان کے باوجود کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔
الدحدوح کی اہلیہ آمنہ، بیٹا محمود، بیٹی شام اور پوتا آدم اکتوبر میں اس وقت جان سے گئے جب اسرائیلی فضائی حملے میں نصیرات کے پناہ گزین کیمپ میں اس گھر کو نشانہ بنایا گیا جہاں انہوں نے پناہ لے رکھی تھی۔
الدحدوح کے دوسرے بیٹے حمزہ جو الجزیرہ سے وابستہ تھے، جنوبی غزہ کے علاقے خان یونس میں براہ راست اسرائیلی فضائی حملے میں ویڈیو گرافر مصطفیٰ ثریا کے ساتھ پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران جان سے گئے۔
الدحدوح اور ان کے ساتھی کیمرہ مین سامر ابو دقہ دسمبر میں اقوام متحدہ کے ایک سکول پر اسرائیلی حملے کی ویڈیو بناتے ہوئے زخمی ہو گئے تھے۔ اسرائیلی گولہ باری کی وجہ سے طبی عملہ ان تک پہنچنے میں ناکام رہا جس کی وجہ سے خون بہنے کے نتیجے میں ان کی موت واقع ہو گئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جنوری کے وسط میں الدحدوح اسرائیلی حملے میں لگنے والے زخموں کی سرجری کے لیے قطر پہنچے۔
کیرالہ میڈیا اکیڈمی کے سیکریٹری انیل بھاسکر نے عرب نیوز کو بتایا کہ الدحدوح کو اس بے خوف رپورٹنگ کی بدولت جانا گیا جس نے دنیا کو غزہ میں تباہی کی حقیقی تصویر دکھائی۔
بھاسکر نے کہا: ’ان کا عزم اور بہادری مثالی ہے اور انہوں نے نہ صرف انڈیا میں بلکہ پوری دنیا میں صحافیوں کے لیے مثال قائم کی ہے۔‘
اقوام متحدہ کی رپورٹوں کے مطابق غزہ میں تقریباً چار ماہ سے جاری اسرائیلی جارحیت میں جان گنوانے والے 27 ہزار سے زیادہ افراد میں 122 سے زیادہ صحافی اور میڈیا ورکرز شامل ہیں۔
آزادی صحافت پر نظر رکھنے والی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس نے گذشتہ ماہ کہا تھا کہ غزہ میں صحافیوں کو اس شرح سے قتل کیا جا رہا ہے جس کی جدید تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی اور ’اسرائیلی فوج کی جانب سے صحافیوں اور ان کے اہل خانہ کو نشانہ بنانے کا انداز واضح ہے۔‘