امریکہ نے بدھ کو جنوبی غزہ میں اقوام متحدہ کی پناہ گاہ پر اسرائیلی گولہ باری کی مذمت کرتے ہوئے، عام شہریوں کے تحفظ کو اسرائیل کی ذمہ داری قرار دیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اسرائیلی فوج نے بدھ کو خان یونس شہر میں 800 افراد کو پناہ دینے والی ایک عمارت پر دو ٹینکوں کے گولے داغے تھے جس کے نتیجے میں نو لوگ جان سے گئے اور 75 افراد زخمی ہوئے۔
اس حملے کے بعد وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کی ترجمان ایڈرین واٹسن نے ایک بیان میں کہا:’ہمیں آج جنوبی غزہ کے ایک علاقے میں یو این آر ڈبلیو اے کی عمارت پر حملوں اور اس کے بعد آگ لگنے کی اطلاعات پر گہری تشویش ہے۔‘
انہوں نے تین ماہ سے جاری اسرائیلی جارحیت کے دوران معصوم جانوں کے ضیاع اور بچوں کی اموات اور زخمی ہونے کو ’دل دہلا دینے والا‘ قرار دیا۔
واٹسن نے کہا کہ اگرچہ امریکہ ’شہری آبادی میں چھپے ہوئے حماس کے دہشت گردوں کے خلاف‘ اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق میں غیرمتزلزل ہے، لیکن ’اسرائیل کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ شہریوں بشمول انسانی حقوق کے اہلکاروں اور مقامات کی حفاظت کرے۔‘
این ایس سی عہدیدار نے اس بات پر بھی زور دیا کہ امریکی صدر جو بائیڈن ’غزہ میں زندگی بچانے والی انسانی امداد میں اضافے اور وہاں موجود تمام قیدیوں کو وطن واپس لانے کی غرض سے کام کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔‘
امریکی محکمہ خارجہ نے بھی اقوام متحدہ کی تنصیبات پر حملوں کی مذمت کی اور اس بات پر زور دیا کہ انسانی امداد کے لیے کام والے کارکنوں کا تحفظ کیا جانا چاہیے تاکہ وہ شہریوں کو زندگی بچانے والی مدد فراہم کرتے رہیں۔
جنوبی غزہ کے سب سے بڑے شہر میں اقوام محدہ کی اس پناہ گاہ پر حملے کی بین الاقوامی سطح پر بھی مذمت کی گئی جبکہ اقوام متحدہ نے بھی جنگی قوانین کی اس ’صریح خلاف ورزی‘ کی مذمت کی۔
ڈیموکریٹس کی اکثریت دو ریاستی حل کی حامی
امریکی سینیٹ میں صدر جو بائیڈن کے ساتھی ڈیموکریٹس کی بھاری اکثریت نے بدھ کو ایک بیان کی حمایت کی جس میں اسرائیل فلسطین تنازع کے دو ریاستی حل کے لیے امریکہ کی حمایت کا اعادہ کیا گیا ہے۔
خبررساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق سینیٹ ڈیموکریٹک کاکس کے 51 میں سے 49 ارکان نے اس ترمیم کی حمایت کی جس کے نتیجے میں اسرائیلی اور فلسطینی ریاستیں ایک ساتھ ہوں گی، ایک محفوظ، جمہوری، یہودی ریاست کے طور پر اسرائیل کی بقا کو یقینی بنائیں گی اور اپنی ریاست کے لیے فلسطینیوں کی ’جائز امنگوں‘ کو پورا کرے گی۔
سینیٹر برائن شٹز نے یہ اقدام آئندہ بل میں ترمیم کے طور پر پیش کیا جو یوکرین، اسرائیل اور تائیوان کو قومی سلامتی کی امداد فراہم کرے گا۔
صرف دو ڈیموکریٹک سینیٹرز جنہوں نے ترمیم پر دستخط نہیں کیے وہ جان فیٹرمین اور جو منچن تھے۔
نتن یاہو کے بیان پر قطر حیران
قطر نے غزہ پراسرائیلی جارحیت کے دوران اپنے ثالثی کے کردار کے متعلق اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو کے مبینہ بیان پر ’حیرانی‘ کا اظہار کیا ہے۔
قطر کی وزارت خارجہ کے ترجمان ماجد الانصاری نے کہا کہ ’ہم قطر کے ثالثی کے کردار کے بارے میں مختلف میڈیا رپورٹس میں اسرائیلی وزیر اعظم سے منسوب مبینہ بیانات پر حیران ہیں۔‘
انہوں نے لکھا کہ ’اگر یہ بیان درست ہے تو اسرائیلی وزیراعظم صرف ثالثی کے عمل میں رکاوٹ ڈال رہے اور انہیں کمزور کر رہے ہوں گے، ان وجوہات کی بنا پر لگتا ہے کہ وہ اسرائیلی قیدیوں سمیت معصوم جانیں بچانے کے بجائے اپنے سیاسی کیریئر کو ترجیح دے رہے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو نے قیدیوں کے اہل خانہ سے ملاقات کی لیک ہونے والی ریکارڈنگ میں قطر کو ’مسائل پیدا کرنے والا‘ قرار دیا ہے۔
’آپ نے مجھے قطر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے نہیں دیکھا، کیا آپ نے نوٹ کیا ہے؟ میں نے قطر کا شکریہ ادا نہیں کیا۔ کیوں؟ کیونکہ میرے خیال میں قطر اقوام متحدہ، ریڈ کراس سے مختلف نہیں ہے اور ایک طرح سے یہ حتیٰ کہ اور زیادہ مسائل پیدا کرنے والا ہے۔ تاہم، اب میں کسی بھی ثالث کا استعمال کرنے کے لیے تیار ہوں جو انہیں (قیدیوں کو) وطن واپس لانے میں میری مدد کر سکے۔‘
قطر کے بیان یا لیک ہونے والی ریکارڈنگ کے بارے میں تبصرہ کرنے کے لیے اسرائیلی حکومت کی جانب فی الحال کوئی دستیاب نہیں تھا۔
قطر غزہ پر حکومت کرنے والی تحریک حماس اور اسرائیلی حکام کے درمیان اہم ثالث کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔
نومبر میں، قطر نے لڑائی میں سات دن کے وقفے کو یقینی بنانے میں مدد کی، جس دوران 110 اسرائیلی اور غیر ملکی قیدیوں کو غزہ سے رہا کیا گیا اور اس کے بدلے میں 240 فلسطینیوں کو اسرائیلی قید سے رہا کیا گیا۔
ریکارڈنگ میں نتن یاہو نے مزید کہا کہ قطر حماس پر نفوذ رکھتا ہے کیونکہ وہ اس تحریک کی مالی اعانت کرتا ہے۔
انہوں نے قیدیوں کے اہل خانہ کو بتایا کہ وہ حال ہی میں قطر میں امریکی فوجی اڈے پر امریکی فوج کی موجودگی میں توسیع کے معاہدے کی تجدید پر ’امریکیوں سے بہت ناراض‘ تھے۔
قطری ترجمان نے اپنے بیان میں کہا کہ ’امریکہ کے ساتھ قطر کے سٹریٹجک تعلقات کے بارے میں بات کرنے کے بجائے ہم امید کرتے ہیں کہ نتن یاہو نیک نیتی سے کام کرنے اور قیدیوں کی رہائی پر توجہ مرکوز کرنے کا فیصلہ کریں گے۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔