بلوچستان کے حلقہ پی بی چار موسیٰ خیل کم بارکھان میں انتخابی معرکہ اس لیے منفرد اور دلچسپ ہے کہ آٹھ فروری کے انتخابات کے لیے یہاں سے باپ اور بیٹا آمنے سامنے ہیں۔
کھیتران قبیلے کے سربراہ اور سابق صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران کے مدقابل امیدوار ان کا بیٹا سردارزاده انعام کھیتران ہیں۔ باپ بیٹے کے ذاتی اختلافات اب سیاسی میدان تک آگئے ہیں۔
حلقہ پی بی چار موسیٰ خیل کم بارکھان پر پہلے سردار عبدالرحمان کھیتران نے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کروائے، جب کہ بعدازاں ان کے بیٹے سردارزادہ انعام کھیتران نے بھی اسی حلقے پر انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا اور اپنے والد کے مدمقابل کاغذات نامزدگی جمع کروائے۔
باپ بیٹا ایک دوسرے کے خلاف انتخابی مہمات چلا رہے ہیں۔
سردار عبدالرحمان کھیتران نے انڈیپینڈینٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اپنے بیٹے سے ذاتی اختلافات اپنی جگہ، مگر انتخابات میں حصہ لینا ایک جمہوری عمل ہے اور ہر کسی کو اس کا حق حاصل ہے۔ میرے بیٹے کو بھی انتخابات میں حصہ لینے کا حق حاصل ہے۔ لیکن یہ وقت نے ثابت کرنا ہے کہ کون جیتے گا۔‘
انہوں نے طنزیہ انداز میں کہا کہ ’اس کی ماں اور دادی بھی میرے خلاف کھڑی ہو جائیں تب بھی نہیں جیت سکتا۔‘
حلقہ انتخاب پر کامیابی کے حوالے عبدالرحمان کھیتران کہتے ہیں کہ ’میری انتخابی مہم، اپنے قبیلے اور لوگوں کی محبت سے مجھے یہ معلوم ہے کہ جیت میری ہو گی۔ اور یہ الیکشن کے دن نتائج ثابت کریں گے۔‘
سردار عبدالرحمان کھیتران نے اپنے بیٹے کے ساتھ اختلافات کے بارے میں کہا ’اختلافات پرانے اور ذاتی ہیں۔‘ تاہم انہوں نے مزید تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔
سردار کھیتران کے بیٹے انعام کھیتران حلقہ پی بی چار پر انتخابات لڑنا اپنے لوگوں کی خدمت سمجھتے ہیں اور ان کے بقول ان کے والد نے علاقے کو گذشتہ کئی سالوں سے پسماندہ رکھا ہوا ہے۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ’میں سردار گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں، اپنی قوم کی مجھے بہت فکر ہے اور قوم کے لیے میں نے بہت قربانیاں دی ہیں اور دیتا رہوں گا۔‘
سردارزادہ انعام کہتے ہیں ’میرے حلقے میں بہت پسماندگی ہے۔ انتخابات میں کامیابی کے بعد میری اولین ترجیح تعلیم، کیونکہ تعلیم جیسے بنیادی حق سے ہمیں محروم رکھا گیا ہے۔ جہالت بڑھتی جا رہی ہے۔ لوگ بھوک کی وجہ سے آپس میں لڑ رہے ہیں۔ میرے والد کئی سال تک اقتدار میں رہے ہیں انہوں نے علاقے کو کچھ بھی نہیں دیا کہ اس پر وہ فخر کریں تو میری قوم کی حالت نے مجھے الیکشن لڑنے پر مجبور کیا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سردارزادہ انعام اپنے والد کو انتخابات میں شکست دینے کے حوالے سے بتاتے ہیں ’الیکشن میں میری پوری کوشش ہو گی کہ جیت سکوں اور جمہوری عمل میں عوام کی مرضی ہو گی، جس کو چاہیں ووٹ دے سکتے ہیں۔ یہ فیصلہ عوام نے کرنا ہے لیکن عوام کے جذبے سے میری جیت یقینی ہے۔‘
انتخابی مہم کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ وہ بھر پور طریقے سے مہم چلا رہے ہیں اور مختلف مقامات پر لوگوں سے ملاقاتیں ہوتی ہیں۔
حلقے کے مقامی صحافی حیات کھیتران کے مطابق باپ اور بیٹے دونوں کی انتخابی مہمات زور و شور سے جاری ہیں۔ ان کہنا تھا کہ دونوں کی یہ کوشش ہے کہ وہ جیت سکے۔
حیات کہتے ہیں: ’ایک علاقے میں سردار کمپین کر رہا ہوتا ہے تو دوسرے میں ان کا بیٹا جاتا ہے۔ جب کہی ایک جاتا ہے تو دوسرا وہاں نہیں جاتا۔‘
سردار عبدالرحمان کا اپنے بیٹے کے ساتھ کئی سالوں اختلافات چل رہے ہیں اور بیٹا طویل عرصے سے قبائلی معاملات میں باپ کی مخالفت کرتے آئے ہیں۔‘
یاد رہے عبدالرحمان کھیتران 1997، 2013 اور 2018 کے انتخابات میں اسی علاقے سے صوبائی اسمبلی کے لیے کامیاب ہوئے تھے اور اہم وزارتوں پر بھی فرائض انجام دے چکے ہیں جب کہ 2002 اور 2008 کے عام انتخابات میں عبدالرحمان کھیتران کی بیوی نصرین عبدالرحمان یہاں سے صوبائی اسمبلی کے لیے منتخب ہوئی تھیں۔
عبدالرحمان کھیتران سینیئر سیاستدان ہونے کے علاوہ تین بار وزیر رہ چکے ہیں اور اس بار وہ مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑ رہے ہیں، جبکہ ان کے بیٹے کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے۔
حلقہ پی بی چار موسیٰ خیل کم بارکھان کے کل ووٹرز کی تعداد ڈیڑھ سے کچھ زیادہ ہیں۔