غزہ میں جاری اسرائیلی جنگ کا پانچواں مہینہ چل رہا ہے۔ اس جنگ میں غزہ کے بہت سے مظاہر اور مناظر اب سامنے نہیں ہیں۔ بہت سے مناظر اور مظاہر ملبے کے ڈھیروں میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ گویا غزہ کی شناخت کے بعض حوالے اب وہ نہیں ہیں جو اس جنگ سے قبل تھے۔
تباہی کے ان مناظر میں سے کچھ نئے افق سامنے آ رہے ہیں۔ نئے امکانات کی صبح ہو رہی ہے اور نئے نئے خدشات بھی جنم لے رہے ہیں۔
ایک خطرہ جاری جنگی واقعات کے پیش منظر کے طور پر رفح میں وجود میں آ رہا ہے، مگر اس کے بعد کے تہہ در تہہ امکانی مناظر پر ابھی بہت کم لوگوں کی توجہ جا رہی ہے۔
اس کوتاہ بصری کی وجہ بھی بڑی فطری اور کسی حد تک جائز ہے کہ غزہ میں جاری اسرائیلی جنگ میں اب تک 28 ہزار سے زائد فلسطینی شہری جان سے چلے گئے ہیں۔
ان میں غالب اکثریت فلسطینی خواتین اور بچوں کی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اب تک جان سے جانے والے 28 ہزار فلسطینیوں میں سے 60 سے 70 فیصد یہی بچے اور خواتین ہیں۔ یہ ایک کربناک منظر ہے۔
کوئی بھی صاحبِ دل اور صاحبِ اولاد انسان شاید ہی ایسا ہو جو اتنی بڑی تعداد میں فلسطینی بچوں اور عورتوں کی لاشوں پر تڑپ تڑپ نہ جاتا ہو۔
تقریباً 70 ہزار فلسطینی زخمیوں کے تڑپنے اور ان میں سے کئی کے جان کنی کے واقعات بھی اسی تکلیف دہ ماحول کا حصہ ہیں مگر اسرائیل اور اس کی فوج ہے کہ اس کے منہ کو 1967 میں عربوں کا جو خون لگا تھا، اب فلسطینی خون سے اسی کی لذت شاد کام کر رہی ہے۔
آہ یہ گرم گرم تازہ، نوجوان لہو!
اسی خون کے نشے کے نتیجے میں اسرائیلی فوج نے اب تک 23 لاکھ کے لگ بھگ فلسطینیوں کو بےگھر کر کے نقل مکانی پر مجبور کر دیا اور انہیں شمالی و وسطی غزہ سے جنوبی غزہ اور پھر جنوبی غزہ سے انتہائی جنوب میں واقع سرحدی شہر رفح میں دھکیل دیا۔
ان بے گھر فلسطینیوں میں سے اب تک 13 لاکھ کے قریب رفح میں ہیں جہاں وہ بے بسی، کسمپرسی اور بے یارو مددگاری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لیکن اسرائیل اور اسرائیلی فوج کو ابھی اطمینان قلب نہیں مل سکا ہے۔ اگلا ہدف ان بے گھر 13 لاکھ فلسطینیوں کو رفح سے بھی آگے مصر کی طرف دھکیلنا ہے تاکہ فلسطینیوں سے پاک غزہ کا منصوبہ، جسے اسرائیل حماس کا صفایا کرنے کی آڑ میں آگے بڑھاتا رہا ہے، حتمی کامیابی کو چھو جائے۔
رفح میں آنے والے فلسطینیوں کو مصر کی سرحدوں کے اندر صحرائے سینا میں دھکیلنا اسرائیل کا دیرینہ خواب ہے۔ اس کی غیر رسمی سے انداز میں امریکی صدر جو بائیڈن نے منظوری بھی دے دی ہے۔
صدر جو بائیڈن جنہوں نے وائٹ ہاؤس میں بطور صدر پہنچنے کے بعد اسرائیل کے پہلے دورے پر بڑے واضح اور دو ٹوک انداز میں اسرائیل سے اپنی اپنائیت کا اظہار یہ کہہ کر کیا تھا کہ ’میں یہودی نہیں، مگر صہیونی ہوں۔‘
ان کا یہ پہلا دورہ اسرائیل میں معانقوں اور محبتوں کا ایک مرقع تھا۔ اس سے یہ اندازہ ہونے لگا تھا کہ جو بائیڈن ڈیموکریٹ صدر ہونے کے باوجود اپنے پیش رو ڈونلڈ ٹرمپ سے کم ثابت نہیں ہوں گے۔
یہ بات انہوں نے جاری اسرائیلی جنگ میں ثابت بھی کی ہے۔ اسرائیل کی ایسی حمایت کی امریکی عوام، ڈیموکریٹک پارٹی، ڈیموکریٹک ارکان کانگریس اور خود امریکی وائٹ ہاؤس میں بھی توقع نہیں کی جا رہی تھی۔
اس غیر متوقع کھلی اور اندھی حمایت کے وجہ سے جو بائیڈن کو امریکہ کے اندر اور باہر تنقید اور مذمت کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ صرف یہی نہیں، آنے والے صدارتی انتخاب میں ابتدائی طور پر انہیں حمایت کے حصول میں بھی نئی مشکلات سامنے آ رہی ہیں، لیکن اسرائیل کے ساتھ امریکہ اور صدرِ امریکہ کی وفاداری بشرط استواری کے درجے میں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ کئی برسوں بعد اسرائیل کے منہ کو لگا عربوں اور فلسطینیوں کا خون خوب راس آنے لگا ہے اور بہت مزہ دے رہا ہے۔
پہلے شمالی غزہ، پھر وسطی غزہ بعد ازاں جنوبی غزہ اور اب رفح پر اسرائیلی فوج اپنے دانت گاڑنے کے ’قابل بھروسہ منصوبے‘ کے ساتھ تیاری میں ہے۔ صدر جو بائیڈن نے بھی جیسا پہلے عرض کیا ہے، غیر رسمی اجازت دے دی ہے کہ رفح پر حملہ کرنا ہے تو ’قابل بھروسہ منصوبے‘ کے ساتھ کیا جائے۔ گویا جنگی منصوبے میں کوئی کمی یا کمزوری نہیں رہنی چاہیے۔
غزہ میں پچھلے چار ماہ کے دوران بھی امریکہ کی سٹریٹیجک سپورٹ اسی نکتے پر مرکوز رہی ہے کہ اسرائیل زیادہ نتائج حاصل کرنے والی زیادہ مؤثر حکمت عملی اپنائے۔
رہی بات شہری اموات سے گریز کا مشورہ دیتے رہنے کی، تو اس کی مثال برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ کیمرون کے تازہ نرم سے انتباہ اور بہترین مشورے کی دی جا سکتی ہے۔
کیمرون نے کہا ہے کہ اسرائیل نے رفح پر حملہ کرنا ہے تو پہلے سنجیدگی سے سوچ لینا ضروری ہے۔ ڈیوڈ کیمرون اسرائیلی حمایت میں ایک خاص حوالہ بھی رکھتے ہیں۔
ڈیوڈ کیمرون کو بھی بطور سابق وزیراعظم برطانیہ ایک ایسا وزیر خارجہ بن کر اسرائیل کے لیے کردار ادا کرنے کا موقع ملا ہے، جس طرح ایک سو سات سال قبل تھیوڈور ہرزل کو بطور سابق وزیراعظم برطانیہ، ایک وزیر خارجہ کے طور پر کلیدی کردار ادا کرنے کا موقع ملا تھا۔ گویا برطانیہ کی طرف سے بھی اسرائیل کے حق میں ایک بار پھر اہم اور مفید تر ثابت ہونے کا موقع تیار ہے۔
امریکہ اور برطانیہ ہی نہیں یورپ کے دوسرے ملکوں کی طرف سے بھی رفح پر منظم جنگی یلغار کے لیے حمایت موجود ہے۔
یہ بھی ایسے ہی ہے جس طرح غزہ میں پچھلے چار ماہ سے زائد عرصے میں منہ میں رام رام کے انداز میں اہل مغرب فلسطینی شہریوں کے لیے میٹھی میٹھی، ٹھنڈی ٹھنڈی اور بے وقت قسم کی باتیں کر کے جبکہ اسرائیل کی عملی حمایت کر کے عملاً بغل میں چھری دبائے پھرتے رہے ہیں۔
وہی انداز اب رفح پر حملے کے حوالے سے ہے اور جرمنی کی وزیر خارجہ اینا لینا بیئرباک نے بھی اسرائیل کے پانچویں دورے پر پہنچنے سے پہلے اختیار کیا ہے۔
ایک خاتون وزیر خارجہ ہونے کے ناطے ان کا پیرایہ اظہار قدرے ہمدردانہ محسوس ہوتا ہے، مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات والا ہے۔ ماشا اللہ امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن کی طرح اینا لینا بیئرباک اسرائیل کا پانچواں دورہ کرنے پہنچ رہی ہیں۔
ان کے پہنچنے تک امکان ہے کہ اسرائیل اس وقت رفح کے لیے اپنے دانت مزید تیز کر چکا ہوگا کہ اس کے منہ کو لگا ہوا خون اب اسے مزید آگے بڑھنے اور مزید خون کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔
رفح پر حملہ اور لمبی جنگی یلغار اس لیے بھی مشکل یا دور نہیں رہ گئی کہ تمام تیاری مکمل ہے۔
امریکی و مغربی حمایت کی جتنی ضرورت ہے وہ مل چکی ہے۔ مزید یہ کہ غزہ سے فلسطینیوں کی مکمل نسلی تطہیر کے لیے یہ فیصلہ کن مرحلہ اسرائیل کی ایک منطقی ضرورت ہے۔
رفح پر عملاً کوئی رکاوٹ بھی نہیں ہے۔ مصر نے قدرے شور کیا تو بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ اس سے پہلے غزہ کے فلسطینیوں پر دانت گاڑنے میں اسرائیل کامیاب ہو چکا ہے۔
لبنان پر بھی دانت تیز کرنے کی مشق جاری رہتی ہے۔ شام وعراق تک اس کے پنجے میزائلوں اور ڈرون حملوں کی صورت پہنچ رہے ہیں تو پھر رفح پر منظم اور امریکی صدر کے الفاظ میں ’قابل بھروسہ منصوبے‘ کے تحت یلغار سے اسرائیل کو کون روک سکے گا؟
بس فرق یہ ہو گا کہ رفح ان دنوں غزہ کی گنجان ترین آبادی سے بھی زیادہ گنجان آباد ہو گئی ہے کہ وہاں 13 لاکھ فلسطینی نقل مکانی کر کے پناہ لیے ہوئے ہیں۔
رفح پر بمباری میں مکانوں کی مسماری کم مگر جانی نقصان کی شرح زیادہ رہے گی۔ مکانوں اور گھروں کی مسماری کی شرح کم اس لیے کہ رفح اس وقت بےگھر لوگوں کے لیے ایک خیمہ بستی بن چکا ہے۔ جانی نقصان اس لیے زیادہ ہونے کا خدشہ ہے کہ بمباری کے رستے میں گھروں کے در و بام بھی حائل نہیں ہو سکیں گے۔
مگر سوال یہ ہے کہ جبالیہ، شجاعیہ، خان یونس اور اب رفح پر اس جنگی یلغار کے بعد اس منہ کو لگے خون کے ساتھ اسرائیل آگے کس سمت میں رخ کرے گا۔
اس کا اگلا ہدف کون ہوگا۔ فی الحال اسرائیل نے صرف لبنان کو غزہ بنانے کی دھمکی دے رکھی ہے لیکن رفح کو تاراج کرنے کے لیے امریکی حمایت حاصل کر چکا اسرائیل سیلاب کی صورت میں کس کے گھر جائے گا۔
کیونکہ اسرائیل کا اصل ایجنڈا ’گریٹر اسرائیل‘ کا ہے، جس میں دریائے نیل تک مصر، پورے کا پورا شام، اردن، لبنان، عراق کا بڑا حصہ، ترکی کا جنوبی حصہ اور خاکم بدہن حجاز مقدس کا بالائی علاقہ مدینہ منورہ تک اس نے شامل کر رکھا ہے، جبکہ غزہ کے بعد تو اس کے مقابل حماس جیسی کوئی منظم جنگجو قوت بھی موجود نہیں ہو گی۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔