انڈیا میں سپریم کورٹ نے جمعرات کو سات سال پرانی اس انتخابی فنڈنگ سکیم پر پابندی لگا دی جو لوگوں اور کمپنیوں کو سیاسی جماعتوں کو خفیہ فنڈز دینے کی اجازت دیتی تھی۔
چیف جسٹس ڈی وائی چندرچور کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے متفقہ فیصلے میں کہا کہ یہ نظام ’غیر آئینی‘ ہے۔ عدالت نے کہا کہ الیکٹورل بانڈز (ای بی) سکیم عوام کے معلومات اور آزادی اظہار کے حق کی خلاف ورزی ہے۔
اس عدالتی فیصلے کو وزیر اعظم نریندر مودی کی حکمران
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے لیے ایک دھچکے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جس نے 2017 میں متعارف کرائے گئے اس نظام سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا۔
ملک میں الیکشن پر نظر رکھنے والے ادارے ’ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز‘ کے مطابق 2018 سے 2023 تک خفیہ عطیہ دہندگان نے ان بانڈز کے ذریعے سیاسی جماعتوں کو ڈیڑھ ارب پاؤنڈ سے زیادہ کی رقم فراہم کی۔
ادارے نے مزید کہا کہ 2018 اور مارچ 2022 کے درمیان ان عطیات میں سے تقریباً 57 فیصد نریندر مودی کی بی جے پی کو ملے۔ اس کے مقابلے میں اپوزیشن کانگریس پارٹی کو صرف 10 فیصد رقم مل سکی۔
صرف رجسٹرڈ سیاسی جماعتیں جنہوں نے پارلیمنٹ یا ریاستی اسمبلی کے پچھلے انتخابات میں کم از کم ایک فیصد ووٹ حاصل کیے تھے وہ یہ بانڈ حاصل کرنے کی اہل تھیں۔
اس سکیم کو متعارف کرانے سے پہلے انڈیا میں سیاسی جماعتوں کو 20,000 روپے سے زیادہ ادا کرنے والے کسی بھی عطیہ دہندہ کی شناخت ظاہر کرنی پڑتی تھی۔
لیکن سیاسی فنانسنگ کے تازہ ترین نظام کے تحت وہ بانڈز کے ذریعے موصول ہونے والی رقم تو ظاہر سکتی تھیں لیکن فنڈ فراہم کرنے والے کی شناخت نہیں۔ یہ بانڈز ایک ہزار روپے سے لے کر ایک کروڑ روپے تک کی قیمتوں میں فروخت کیے گئے تھے۔
انتخابی بانڈز کو حزب اختلاف کے اراکین اور سول سوسائٹی کے ایک گروپ نے اس بنیاد پر چیلنج کیا کہ یہ عوام کے یہ جاننے کے حق میں رکاوٹ ہے کہ سیاسی جماعتوں کو کہاں سے پیسہ ملتا ہے۔
اس نظام کے تحت کوئی شخص یا کمپنی یہ بانڈز ریاست کے زیر انتظام سٹیٹ بینک آف انڈیا (ایس بی آئی) سے خرید کر اپنی پسند کی سیاسی جماعت کو عطیہ کر سکتی ہے۔
اس کیس کی آئینی بینچ نے گذشتہ سال 31 اکتوبر سے دو نومبر کے درمیان تین دن تک سماعت کی۔
صحافی نو جولائی 2018 کو نئی دہلی میں انڈیا کی سپریم کورٹ کی عمارت کے احاطے میں بیٹھے ہیں (اے ایف پی)
سول سوسائٹی گروپ اے آر ڈی اور کامن کاز کی طرف سے پیش ہونے والے ایڈوکیٹ پرشانت بھوشن نے دلیل دی کہ یہ سکیم واضح طور پر موجودہ حکمران حکومت کے لیے فائدہ مند ہے کیونکہ نام ظاہر نہ کرنے کی ضمانت انہیں عطیہ دہندگان کو لائسنس، لیز، سرکاری ٹھیکے اور پالیسی میں تبدیلی کی صورت میں
رعایتیں فراہم کرنے کی اجازت دیتی ہے۔
تاہم حکومت کی طرف سے پیش ہونے والے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے سکیم کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ مقصد ’نام ظاہر نہ کرنے‘ کو یقینی بنانا نہیں بلکہ عطیہ دہندگان کو ’رازداری‘ فراہم کرنا ہے۔ انہوں نے عطیہ دہندگان کے رازداری کے حق کی دلیل بھی دی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لیکن پانچ ججوں کے بینچ نے، جس میں جسٹس سنجیو کھنہ، بی آر گاوائی، جے بی پارڈی والا اور منوج مشرا بھی شامل ہیں، درخواست گزاروں سے اتفاق کرتے ہوئے فیصلہ دیا کہ ’الیکٹورل بانڈ سکیم کو غیر آئینی قرار دے کر ختم کیا جانا چاہیے۔ اس سے شہریوں کے معلومات کے حق کی خلاف ورزی ہوتی ہے ممکنہ طور پر کسی خرد برد کے حوالے سے۔
بینچ نے مزید کہا کہ ’سیاسی پارٹیوں میں مالی تعاون دو باتوں کے لیے کیا جاتا ہے ایک سیاسی پارٹی کی حمایت کے لیے یا کسی خرد برد کے لیے۔‘
بینچ نے بینکوں کو ہدایت کی کہ وہ انتخابی بانڈز جاری کرنا بند کر دیں۔ عدالت نے ایس بی آئی کو حکم دیا کہ وہ سیاسی جماعتوں کے کیش کرائے گئے بانڈز کی تفصیلات فراہم کرے۔
اس میں یہ بھی کہا گیا کہ تفصیلات الیکشن کمیشن آف انڈیا کو جمع کرائی جائیں جسے بعد میں ادارے کی ویب سائٹ پر شائع کیا جائے۔
انڈیا کے سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی نے فیصلے کو ’تاریخی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ’جمہوریت کے لیے بہت سود مند ہے۔‘
انہوں نے خبر رساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا کو بتایا: ’ہم سب پچھلے کئی سالوں سے اس کے بارے میں فکر مند تھے۔ جمہوریت سے محبت کرنے والا ہر شخص اس کے بارے میں احتجاج کر رہا تھا۔
’میں نے خود کئی مضامین لکھے اور میڈیا سے کئی بار بات کی اور ہر وہ مسئلہ جو ہم نے اٹھایا تھا اس فیصلے سے حل ہو گیا۔‘
ایڈوکیٹ پرشانت بھوشن نے بھی فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ ’اس کا ہماری انتخابی جمہوریت پر طویل مدتی اثر پڑے گا۔‘
انہوں نے کہا: ’سپریم کورٹ نے الیکٹورل بانڈ سکیم کو ختم کر دیا اور ان تمام دفعات کو جو انکم ٹیکس ایکٹ، کمپنیز ایکٹ وغیرہ میں اسے نافذ کرنے کے لیے بنائے گئے تھے، سب کچھ ختم کر دیا گیا۔
’ان کا موقف ہے کہ اس سے شہریوں کے معلومات کے بنیادی حق کی خلاف ورزی ہوتی ہے کہ وہ یہ جان نہیں پا رہے تھے کہ سیاسی جماعتوں کو اتنی رقم کون دے رہا ہے۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔