انڈیا کی سپریم کورٹ نے منگل کو اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ اس کے پاس ہم جنس پرستوں کی شادیوں کو قانونی حیثیت دینے کا اختیار نہیں ہے اور اس سلسلے میں کوئی بھی اصلاحات پارلیمنٹ سے کی جائیں گی۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے اپنے فیصلے میں کہا، 'شادی سے متعلق قانون کا تعین کرنا پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلیوں کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔
سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے ہم جنس پرستوں کی شادی کو قانونی حیثیت دینے کے خلاف 3:2 کے فیصلے میں فیصلہ سنایا۔
چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بنچ نے 10 دن کی طویل سماعت کے بعد 11 مئی کو اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔
بنچ کے دیگر ارکان میں جسٹس سنجے کشن کول، جسٹس ایس رویندر بھٹ، جسٹس ہیما کوہلی اور جسٹس پی ایس نرسمہا شامل تھے۔
جسٹس رویندر بھٹ نے اپنے فیصلے میں ہم جنس پرست یا ایل جی بی ٹی کیو جوڑوں کے لیے شادی کی مساوات کے معاملے پر فیصلہ پارلیمنٹ پر چھوڑ دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں 'ہم خاص طور پر قریبی جگہوں کو جمہوری بنانے کے بارے میں سی جے آئی کے خیالات سے متفق نہیں ہیں... یہ نتائج قانون سازی کے ذریعہ لائے گئے تھے۔‘
اس سے پہلے اس سال شادی کی مساوات پر سماعت کے دوران سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے مرکزی حکومت کی طرف سے دلیل دی تھی کہ شادی میں مساوات لانے کے عمل میں 160 قوانین متاثر ہوں گے۔ نتیجتا مہتا نے کہا کہ پارلیمنٹ ہی اس طرح کے قوانین بنانے کا واحد فورم ہے۔
جسٹس بھٹ نے مزید کہا کہ کوئی شہری سفر کے حق کو نافذ کرنے کے لیے سڑکوں کے نیٹ ورک کی تعمیر کا مطالبہ نہیں کرسکتا ہے۔ اس مثال کا حوالہ دیتے ہوئے وہ دلیل دیتے ہیں کہ عدالت ہم جنس پرستوں کی شادی کے لیے قانون سازی کے فریم ورک کے بغیر حقوق کا گلدستہ نہیں دے سکتی ہے تاکہ ہم جنس پرست لوگوں کے حقوق کو مؤثر بنایا جاسکے۔
بحث کے دوران مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ سے کہا تھا کہ وہ جنس پرستوں کی شادی کی قانونی توثیق کی مانگ کرنے والی درخواستوں پر اس کی طرف سے دیا گیا کوئی بھی آئینی اعلان ’صحیح کارروائی‘ نہیں ہوسکتا ہے کیونکہ عدالت اس کے نتائج کا اندازہ لگانے، تصور کرنے، سمجھنے اور اس سے نمٹنے کے قابل نہیں ہوگی۔
اخبار انڈین ایکسپریس کے مطابق اس فیصلے سے شادی اور پرسنل لا کے باہمی تعامل کے لیے ایک فریم ورک تیار ہونے کا امکان ہے۔
دائر کی گئی درخواستوں کا محور سپیشل میرج ایکٹ کی صنفی غیر جانبدار تشریح ہے۔ یہ ایکٹ ایک سیکولر قانون ہے جو بین ذات اور بین المذاہب شادیوں کو آسان بنانے کے لیے بنایا گیا تھا۔ درخواست گزاروں نے اس قانون کی وسیع تر تشریح کا مطالبہ کیا ہے جس میں ہم جنس پرستوں کی شادیوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
درخواست گزاروں کی مخالفت کرنے والوں میں مرکزی حکومت کے علاوہ بچوں کے حقوق کی قومی تنظیم این سی پی سی آر اور اسلامی سکالرز کی ایک تنظیم جمعیت علمائے ہند شامل تھی۔
مجموعی طور پر ار فیصلے سنائے جانے ہیں۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ، جسٹس کول، جسٹس بھٹ اور جسٹس نرسمہا نے ایک ایک فیصلہ سنایا ہے۔ چیف جسٹس مرکزی حکومت کے اس موقف کو قبول نہیں کرتے کہ ہم جنس شادی کے معاملے سے صرف پارلیمنٹ میں ہی نمٹا جا سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں 'اختیارات کی تقسیم کا نظریہ بنیادی حقوق کے نفاذ کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتا...'
وہ اپنی رائے میں یہ بھی کہتے ہیں کہ ’ہم جنس پرستی نہ تو شہری ہے اور نہ ہی اشرافیہ تک محدود۔‘
اس سے پہلے اپریل میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ حکومت کی جانب سے ایسے کوئی اعداد و شمار نہیں ہیں جو اس کی اس دلیل کی تائید کرتے ہوں کہ درخواست گزاروں کی جانب سے ہم جنس شادیوں کو قانونی طور پر تسلیم کرنے کے لیے اس کے سامنے جو کچھ پیش کیا گیا ہے وہ سماجی قبولیت کے مقصد کے لیے محض شہری اشرافیہ کے خیالات ہیں۔‘
پس منظر
عدالت عظمی نے ہم جنس پرستوں کی شادی کو قانونی حیثیت دینے کا معاملے پر رواں سال مارچ میں بڑا بینچ تشکیل دیا تھا۔
اس بینچ کی جانب سے ہم جنس پرستوں کی شادی کو قانونی قرار دینے کی صورت میں انڈیا ایشیا میں ایسا کرنے والا تائیوان کے بعد دوسرا ملک بن جائے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈیا میں برطانوی قانون کے سیکشن 377 کے تحت ہم جنس پرستی کی سزا 10 سال قید تھی تاہم اس سیکشن کو کالعدم کروانے کے لیے 1990 سے مہم جاری تھی۔
2009 میں نئی دہلی کورٹ نے ہم جنس پرستی کو ناقابل سزا جرم قرار دے دیا لیکن سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ 2013 میں کالعدم کرتے ہوئے کہا کہ آئین میں تبدیلی صرف پارلیمنٹ سے ہوسکتی ہے۔
بعد ازاں 2018 میں بھارتی سپریم کے پانچ رکنی بینچ نے اس اہم مسئلے پر طویل بحث کے بعد سیکشن 377 کو منسوخ کر دیا تھا جس کے بعد ہم جنس پرستی پر سزا ختم ہوگئی تھی اور یہ ناقابل گرفت جرم نہ رہا۔
اس فیصلے کے بعد سے سپریم کورٹ میں ہم جنس پرستوں کی شادی کو قانونی قرار دینے کے لیے کئی درخواستیں موصول ہوئی تھیں جس پر مودی حکومت نے بھی اپنا مؤقف عدالت میں جمع کرایا۔
مودی سرکار کے حلف نامے میں مؤقف اختیار کیا کہ وہ ہم جنس پرستوں کی شادی کو قانونی حیثیت دینے کے خلاف ہیں اور اس پر کوئی فیصلہ دینا عدالت کے دائرہ اختیار میں نہیں بلکہ اس پر صرف پارلیمنٹ میں قانون سازی ہوسکتی ہے۔
حلف نامے میں مزید کہا گیا ہے کہ ہندو مذہب میں خاندان بائیولوجیکل مرد اور عورت پر مشتمل ہوتا ہے۔ دیگر مذاہب میں بھی ایسا ہی ہے۔ ہم جنس پرستوں کی شادی سے خاندانی نظام تباہ ہوجائے گا۔
انڈیا میں اب تک تین لاکھ سے زیادہ ہم جنس پرست جوڑے شادی کر چکے ہیں لیکن اکثر اوقات انہیں شادی کروانے والے پنڈتوں اور پجاریوں کی جانب سے دھتکار دیا جاتا ہے۔