افغانستان کے لیے سابق امریکی سفیر زلمے خلیل زاد کا کہنا ہے کہ امریکی افواج کے انخلا کے وجہ یہ تھی کہ واشنگٹن نے چین اور روس جیسی بڑی طاقتوں کے خلاف توجہ مرکوز کر رکھی تھی اور اس کی افغانستان میں دلچسپی نہیں رہی تھی۔
زلمے خلیل زاد نے، جو دوحہ میں طالبان کے ساتھ امریکی معاہدے کی مرکزی شخصیت تھے، یہ بیان امریکی ایوان نمائندگان کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی کے ’دوحہ معاہدے کے نفاذ میں بائیڈن حکومت کی شکست‘ کے عنوان سے اجلاس میں دیا۔
انہوں نے کہا کہ امریکی افواج کے انخلا کی ایک اور وجہ یہ تھی کہ افغانستان اب دہشت گردی کا مرکز نہیں رہا اور قوم سازی کے عمل کے ذریعے ملک کو جدید جمہوری ریاست میں تبدیل کرنے کی حکمت عملی ’غیرحقیقت پسندانہ‘ تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ اجلاس تین گھنٹے تک جاری رہا، جس میں کابل ایئرپورٹ کے قریب خودکش حملے میں جان سے جانے والے 13 امریکی فوجیوں کے لواحقین کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔
زلمے خلیل زاد نے مزید کہا کہ اشرف غنی کی افغانستان سے روانگی اقتدار کی منتقلی میں رکاوٹ بنی۔ ’آخری لمحات میں ہم طالبان کو کابل میں داخل ہونے سے روکنے میں کامیاب ہوگئے لیکن اشرف غنی اچانک فرار ہوگئے، جس کی وجہ سے فوج اور پولیس بے راہ روی کا شکار ہوگئی۔ اس صورت حال کی وجہ سے طالبان کابل میں داخل ہوئے۔‘
سابق سفارت کار کے مطابق: ’اشرف غنی نے طالبان کے ساتھ اقتدار کی شراکت پر اتفاق کیا تھا اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ ایک عارضی حکومت یکم ستمبر سے اپنا کام شروع کرے گی۔‘ انہوں نے شکست کی ذمہ داری زیادہ تر افغان حکومت اور سابق صدر محمد اشرف غنی کے فرار پر ڈالی۔
— Zalmay Khalilzad (@realZalmayMK) February 16, 2024
گذشتہ سال ایک انٹرویو میں اشرف غنی نے اقتدار کے زوال کا ذمہ دار امریکہ اور اس کے کچھ شراکت داروں کو ٹھہراتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں خونریزی روکنے کے لیے کابل چھوڑنے پر مجبور کیا گیا اور اگر وہ قیام کرتے تو ’طالبان کے ہاتھوں مارے جا سکتے تھے۔‘
31 اگست 2021 کو امریکی قیادت میں نیٹو افواج نے افغانستان سے انخلا مکمل کیا تھا، تاہم اس سے قبل 15 اگست کو ہی افغان طالبان نے کابل کا کنٹرول حاصل کرکے اپنی حکومت قائم کرنے کا اعلان کردیا تھا۔
زلمے خلیل زاد نے مزید کہا کہ ’افغانستان کے حوالے سے آخری باب ابھی لکھا نہیں گیا اور اس وقت افغانستان سے منہ موڑنا بہت بڑی غلطی ہو گی۔‘
ہاؤس فارن افیئرز کمیٹی کے سامنے خلیل زاد کی گواہی میں مبصرین کے مطابق دوحہ معاہدے، امریکہ کے انخلا کی وجہ اور غنی انتظامیہ کے خاتمے کے بارے میں تازہ معلومات کا فقدان تھا۔ کچھ افغان سیاست دانوں کے دعوؤں کے برعکس، انہوں نے دوحہ معاہدے سے متعلق کسی بھی قسم کے ’خفیہ معاہدوں اور ضمیموں‘ کا ذکر کرنے سے گریز کیا۔
اس اجلاس میں خلیل زاد نے طالبان کے ساتھ دوحہ معاہدے کا دفاع کیا تاہم کانگرس کے ارکان کے سخت سوالات اور تنقید کا سامنا بھی کیا۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔