کتنے وزرائے اعظم الیکشن سے باہر، کتنی خواتین اول قید ہوئیں؟

پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو، نواز شریف، بے نظیر بھٹو اور یوسف رضا گیلانی، شاہد خاقان عباسی، عمران خان جیسے وزرائے اعظم اور نصرت بھٹو، کلثوم نواز اور بشری بی بی کو قید رکھا گیا ہے۔

سابق پاکستانی وزرایے اعظم جن کو قید کی سزائیں دی گئیں۔ دائیں سے بائیں نواز شریف، عمران خان، بے نظیر بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو (اے ایف پی)

پاکستان میں عمران خان اور بشریٰ بی بی سے قبل بھی ایسے وزرائے اعظم اور خواتین اول گزری ہیں جنہیں قید کی سزائیں ہوئیں جن کی وجہ سے وہ الیکشن سے دور رہے اور ان کی اہلیہ یا خاوند کو قید کیا گیا۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سیاسی جماعتوں اور لیڈروں پر مختلف انتخابات میں سخت حالات پیدا ہوئے۔ گرفتاریاں، ملک بدری اور کئی بار انتخابات سے باہر ہونا کویی نئی بات نہیں۔

بشری بی بی پہلی سابق خاتون اول نہیں جنہیں قید کی سزا سنائی گئی اور بنی گالہ کو سب جیل قرار دے کر نظر بند کیا جارہا ہے۔

ان سے پہلے دو خواتین اول ایسی گزری ہیں جنہیں گرفتاریوں اور قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔

جب بھی کسی سیاسی رہنما یا ان کے اہل خانہ میں سے کسی کے خلاف کارروائی ہوئی تو اسے سیاسی انتقام کا نام دیا گیا جس کے کچھ عرصے بعد ہی انہیں ان ہی عدالتوں سے ریلیف ملتا ہے جو پہلے ان کو نااہل قرار دیتی ہیں یا قید کی سزائیں سناتی ہیں۔

اس حوالے سے تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ ان کارروائیوں کے شروع سے ہی ذمہ دار خود سیاست دان ہیں۔

ملک میں جب بھی کسی سیاسی لیڈر کے خلاف کارروائی شروع ہوتی ہے تو مخالف اس کی حمایت کرتے ہیں۔ اپنے لیے اقتدار کی راہ ہموار کرنے کی خواہشات کے ہاتھوں مجبور ہوکر یہ بھول جاتے ہیں کہ جب ان کے خلاف کارروائی ہوگی تو دوسرا اس کا فائدہ اٹھانے کے لیے حمایت کرے گا۔

سیاسی تجزیہ کاروں کے خیال میں آمریت کے دور میں بھی سیاست دان ہی آلہ کار بن کر اپنے انجام کی فکر کیے بغیرمیدان سے اپنے مخالفین کو صاف کرانے کی ٹھان لیتے ہیں۔ ماضی میں نواز شریف پیپلز پارٹی کے خلاف استعمال ہوئے۔ پھر عمران خان نواز شریف کے خلاف استعمال ہوئے بھی سیاسی قائدین عمران خان کے خلاف کارروائیوں کی حمایت کر رہے ہیں۔

اس بار عمران خان کو ان کی جماعت سے انتخابی نشان واپس لے کر الیکشن سے باہر کردیا گیا ہے۔

کون کون سے سابق وزرائے اعظم الیکشن سے باہر رہے؟

پاکستان میں سیاسی جماعتوں کو انتخابات کے ذریعے باقائدہ اقتدار میں آنے کا سلسلہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت سے شروع ہوا جب بطور وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 1973 میں آئین تشکیل دیا۔

ملک میں سب سے بڑا وزارت اعظمیٰ کا عہدہ حاصل کرنے کے بعد مشکلات بھی اتنی بڑی برداشت کرنے کے واقعات تاریخ کا حصہ ہیں۔

وزیر اعظم لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں جلسے کے دوران گولی مار قتل کردیا گیا۔

ضیاالحق نے مارشل لا لگا کر ذوالفقار علی بھٹو کو گرفتار کرا دیا پھر انہیں پھانسی بھی دے دی گئی۔

جب 1998 میں نواز شریف حکومت کا تختہ الٹا گیا تو جنرل مشرف نے مارشل لا لگا کر انہیں گرفتار کر لیا۔ پھر انہیں اور محترمہ بے نظیر بھٹو کو ملک بدر رکھا گیا۔

دونوں رہنماؤں نے میثاق جمہوریت کیا تو واپسی کی راہ ہموار ہوئی لیکن محترمہ بے نظیر بھٹو کو 2008 کے انتخابات سے قبل راولپنڈی میں جلسے کے بعد گولی مار کر قتل کردیا گیا۔

سینیئر تجزیہ کار مجیب الرحمن شامی کے بقول: ’پاکستان کی سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی کسی وزیر اعظم کو نااہل قرار دلوا کر مقدمات بنائے گئے تو مخالف سیاسی لیڈروں نے ان اقدامات کی حمایت کی۔ تاکہ الیکشن سے باہر کرا کے اپنے لیے اقتدار کی راہ ہموار کی جاسکے۔ جب استعمال ہوکر اقتدار میں آنے والے وزیر اعظم کے خلاف کارروائی شروع ہوئی تواس کا مخالف غیر جمہوری قوتوں کا کھلونا بن گیا۔‘

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’1990 میں نواز شریف نے بطور وزیر اعلی پنجاب بے نظیر حکومت گرانے میں کردار ادا کیا۔ اس کے بعد وہ پہلی بار وزیر اعظم بن گئے ان کی حکومت بھی دو اڑھائی سال بعد ختم ہوگئی۔

محترمہ بے نظیر بھٹو الیکشن جیت کر 1993 میں دوبارہ وزارت عظمی کے عہدے پر فائز ہوئیں۔ اس بار بھی ان کی حکومت پانچ سال مدت پوری نہ کر سکی اس وقت کے صدر مملکت غلام اسحاق خان نے دو سال بعد ہی اسمبلی تحلیل کر دی۔

’نواز شریف دوسری بار 1997 کے انتخابات میں وزیر اعظم بننے میں کامیاب ہوگئے۔ مگر ان کے ساتھیوں نے ہی انہیں سیاسی طور پر کمزور کردیا۔ جب جنرل پرویز مشرف نے 1999 میں ان کی حکومت کا تختہ الٹ کر مارشل لا لگایا اور انہیں طیارہ ہائی جیکنگ کیس میں گرفتار کیا۔ تو ان کے ہی قریبی ساتھی میاں اظہر اور چوہدری بردران نے مشرف کا ساتھ دیا مسلم لیگ قائد اعطم کے نام سے الگ پارٹی بنا لی۔ لہذا اسی جماعت کو اقتدار مل گیا اور انہوں نے مشرف کے ساتھ مل کر 8 سال حکومت کی۔‘

مجیب الرحمن شامی کے مطابق: ’نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کو مشرف نے جلا وطن کردیا اس دوران 2002 کے انتخابات میں ان کی جماعتوں کو الیکشن لڑنے دیا گیا لیکن یہ دونوں سابق وزرا اعظم الیکشن سے باہر رکھے گئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’جب 2013 میں نواز شریف وزیر اعظم بنے تو عمران خان اور ان کی جماعت منتخب حکومت کو گرانے کے لیے لانگ مارچ کیے عدالتوں میں کیس دائر کیے، تاکہ انہیں ہٹا کر اقتدار حاصل کیا جائے۔ لہذا عدالت نے تحریک انصاف کی درخواست پر پانامہ کیس میں نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کو نہ صرف قید کی سزائیں سنائی بلکہ الیکشن کے لیے بھی نااہل قرار دے دیا۔‘

مجیب الرحمن شامی کے مطابق: ’تحریک انصاف 2018 میں پوری طرح آزادی سے انتخاب لڑ رہی تھی۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے خلاف کارروائیاں جاری تھیں جبکہ نواز شریف کو الیکشن سے باہر کردیا گیا۔ لہذا عمران خان وزیر اعظم بن گئے ان کی پارٹی کو اقتدار دے دیا گیا۔

’جب اپریل 2022 میں عمران خان حکومت ختم کرنے کے لیے ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تو مسلم لیگ ن سمیت پی ڈی ایم مین شامل جماعتوں نے اقتدار کے لیے جدوجہد کی اور شہباز شریف وزیر اعظم بنے دیگر جماعتوں کو بھی شریک اقتدار بنایا گیا۔ جبکہ عمران خان کے خلاف مختلف کیس کھل گئے، جن کی بنیاد پر اب انہیں نہ صرف نااہل قرار دے کر 2024 کے انتخابات سے آوٹ کردیا گیا بلکہ جماعت بھی قانونی طور پر باہر ہے۔‘

سیاسی تجزیہ کار سلمان غنی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہر الیکشن میں ایک وزیر اعظم باہر ہوتا ہے، پہلے یوسف رضا گیلانی کو نااہل قرار دے کر باہر کیا گیا۔ اس کے بعد نواز شریف کو نااہلی کے باعث الیکشن سے روکا گیا، اب عمران خان انتخابات میں نہیں ہیں۔ یہ پاکستان کا المیہ ہے۔ مگر افسوس ناک بات یہ ہے کہ کوئی بھی ماضی سے سبق حاصل نہیں کرتا ایک دوسرے کے خلاف سہولت کار بن کر سیاسی انجام کو پہنچتے ہیں۔

’پاکستان میں سیاست دان وقت سے نہیں سیکھتے اقتدار کے لیے ایک دوسرے کو دیوار سے لگانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ آج اگر عمران خان اور بشری بی بی کو سزائیں ہوئی ہیں تو ماضی میں نواز شریف اور مریم نواز کو بھی سزائیں ہوئی تھیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ سیاسی شخصیات کو جن عدالتوں سے سزا ملتی ہے بالآخر ریلیف بھی کورٹ سے ملتا ہے۔ اس میں فرق صرف یہ ہے کہ عمران خان کے وکلا نے عدالتوں کی بجائے کیس سوشل میڈیا پر لڑا ہے۔‘

کتنی خواتین اول کو قید و بند کا سامنا رہا؟

مجیب الرحمن شامی نے کہا کہ ’بشریٰ بی بی پہلی سابق خاتون اول نہیں جنہیں سزا ملی ہے اس سے پہلے نصرت بھٹو اور کلثوم نواز بھی سخت کارروائی اور نظر بندی کا سامنا کر چکی ہیں۔

ان کے علاوہ بھی سیاسی خواتین کے خلاف کارروائی ہوتی رہی ہے مریم نواز کے خلاف بھی کارروائیاں ہوئیں اور وہ جیل میں بھی قید رہی ہیں۔

’جس طرح بشریٰ بی بی کو اڈیالہ جیل میں قید کرنے کی بجائے بنی گالہ ان کی رہائش گاہ کو سب جیل کا درجہ دے کر بند کیا گیا ہے اسی طرح باقی گرفتار جیل میں بند سیاسی خواتین کو بھی ان کے گھروں میں نظر بند کردیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ خواتین کا احترام ہونا چاہیے۔‘

سلمان غنی نے کہا کہ ’ضیا دور میں جب ذوالفقار علی بھٹو جیل میں تھے تو نصرت بھٹو کو مذاحمت یا سیاسی جدوجہد سے روکنے کے لیے کافی عرصہ نظر بند رکھا گیا۔ اس کے بعد جب مشرف دور میں نواز شریف کو قید کیا گیا ان کی اہلیہ کلثوم نواز کے خلاف بھی کارروائی کی گئی لاٹھی چارج بھی ہوئے انہیں بھی کئی بار نظر بند کیا گیا تھا۔‘

’بشری بی بی کا معاملہ ان سے مختلف ہے ان کے خلاف سیاسی مزاحمت کی بنیاد پر کارروائی نہیں ہوئی بلکہ توشہ خانہ، القادر ٹرسٹ سمیت دیگر کرپشن کیسوں میں ملوث قرار دی گئی ہیں۔ ان کا بظاہر کوئی سیاسی کردار تو نہیں لیکن کرپشن کے سنجیدہ الزامات ہیں۔ لہذا ان کا کردار مختلف ہے کیوں کہ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے خاوند کے عہدے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مالی کرپشن کی ہے۔‘

کارروائیاں رکنے کا کوئی طریقہ ہے؟

مجیب الرحمن شامی کے مطابق: ’ملک میں کسی کے خلاف بھی انتقامی کارروائی ہو تو سیاسی قیادت کو چاہیے کہ حقائق پر مبنی کیسوں کو ہی عدالتوں تک لے جائیں۔ لیکن سیاسی فیصلے خود بیٹھ کر کریں عوام میں مقبولیت اور کارکردگی کی بنیاد پر شفاف انتخابات کے ذریعے اقتدار کی راہ ہموار کرنے کی روایت ڈالیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’جس طرح ایک دوسرے کے خلاف الزامات کو ہتھیار بنایا جاتا ہے اس سے اجتناب کرتے ہوئے ایشوز پر فوکس کریں۔ اگر ہمارے سیاسی رہنما مخالفین کی پگڑیاں اچھالنے کی بجائے اپنی کارکردگی کی بنیاد پر عوام جائیں تو زیادہ پذیرائی حاصل ہوسکتی ہے۔‘

سلمان غنی نے کہا کہ ’عوام کو کھوکھلے نعروں اور ایک دوسرے کو نیچا دکھا کر ساتھ ملانے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ لوگوں میں انتخابات میں دلچسپی کم اس لیے ہو رہی ہے کہ ایک دوسرے کے خلاف کارروائیوں کی حمایت کی بجائے عوامی مسائل پر توجہ دینے میں کوئی سنجیدہ نہیں۔ وقت بدل چکا ہے اب سیاست دانوں کو بھی بدلنا پوگا الزامات کی بجائے تعمیر وترقی پر کو اپنا نعرہ بنائیں اوراقتدار میں آنےکے بعد اس پر عمل کریں۔‘


مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست