امریکی سینٹرل کمانڈ نے جمعرات کو ایکس پر ایک بیان میں کہا کہ 15 فروری کی شام تقریباً ساڑھے چار بجے یمن میں حوثیوں کے زیر کنٹرول علاقوں سے خلیج عدن میں جہاز شکن بیلسٹک میزائل داغا گیا۔
بیان کے مطابق میزائل کا رخ برطانوی ملکیتی اور بارباڈوس کے جھنڈے والے مال بردار جہاز ایم وی لیکاویٹوس کی طرف تھا۔
Feb. 15 Summary of Red Sea ActivitiesOn Feb. 15, at approximately 4:30 p.m., an anti-ship ballistic missile was launched from Houthi controlled areas of Yemen into the Gulf of Aden. The missile was headed toward MV Lycavitos, a Barbados-flagged, UK-owned and operated bulk… pic.twitter.com/FxB1m29MPO— U.S. Central Command (@CENTCOM) February 16, 2024
حملے میں جہاز کو بہت معمولی نقصان ہوا اور اس نے اپنا سفر جاری رکھا۔
برطانوی میری ٹائم سکیورٹی ایجنسی نے حملے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ جہاز اور اس کا عملہ محفوظ ہے۔
برطانیہ کے میری ٹائم ٹریڈ آپریشنز ایجنسی نے کہا کہ یمن کے بندرگاہی شہر موکھا کے شمال مغرب میں گزرنے والے جہاز پر ایک میزائل سے حملہ کیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سہ پہر 3:10 سے رات آٹھ بجے (صنعا کے وقت) کے درمیان، امریکی سینٹرل کمانڈ (سینٹ کام) فورسز نے یمن کے حوثیوں کے زیر کنٹرول علاقوں میں تین موبائل اینٹی شپ کروز میزائلوں (اے ایس سی ایم) کے خلاف دو حملے کیے جو بحیرہ احمر میں بحری جہازوں کے خلاف لانچ کرنے کے لیے تیار تھے۔
سینٹ کام نے یمن کے حوثیوں کے زیر کنٹرول علاقوں میں ان موبائل میزائلوں کی نشاندہی کی اور اس بات کا تعین کیا کہ یہ خطے میں امریکی بحریہ کے جہازوں اور تجارتی جہازوں کے لیے خطرہ ہیں۔
بیان کے مطابق ان اقدامات سے جہاز رانی کی آزادی کا تحفظ ہوگا اور بین الاقوامی پانیوں کو امریکی بحریہ اور تجارتی جہازوں کے لیے زیادہ محفوظ اور محفوظ بنایا جائے گا۔
دوسری جانب امریکی محکمہ خزانہ نے اپنی ویب سائٹ پر جاری ایک بیان میں کہا کہ بحیرہ احمر میں مال بردار جہازوں پر حملوں سے تعلق کی بنا پر حوثیوں کے خلاف امریکہ کی ’خصوصی طور پر نامزد عالمی دہشت گرد‘ پابندیاں جمعے کو نافذ العمل ہو گئیں۔
امریکی حکومت نے گذشتہ ماہ کہا تھا کہ وہ یمن سے تعلق رکھنے والے باغی گروپوں کو ’دہشت گرد‘ گروہوں کی عالمی فہرست میں واپس لا رہی ہے تاکہ بین الاقوامی جہازوں پر حملوں کو روکا جا سکے۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔