بلال اسلم صنعت کار ہیں۔ وہ امپورٹ مینوفکچرنگ سے منسلک ہیں اور ملکی معیشت پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ وہ شدت سے انتخابات ہونے کے منتظر تھے تاکہ عوامی مینڈیٹ رکھنے والی حکومت آئے اور عام آدمی سمیت کاروباری طبقے کے بھی مسائل حل ہو سکیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’حکومت کی ناقص پالیسیوں کے باعث امپورٹ کرنا آسان نہیں رہا۔ درآمدات میں رکاوٹوں کے باعث گذشتہ 20 ماہ کے دوران میرے بہت سے دوست نہ صرف دبئی کی رئیل سٹیٹ میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کرنے لگے ہیں بلکہ وہاں درآمد اور برآمد کے لیے ٹریڈ ہاؤسز بھی قائم کر رہے ہیں۔‘
ان کے بقول ’پاکستان میں بہت سے بڑے بزنس ٹائیکونز نے اپنا کاروبار جزوی یا مکمل طور پر دبئی منتقل کرلیا ہے جس سے ملک مناسب آمدنی اور ملازمتوں سے محروم ہوتا جارہا ہے۔‘
وہ منتظر ہیں کہ نئی حکومت اس مسئلے کے حل کے لیے کوئی کوشش کرتی ہے یا ماضی کی طرح الزام کی سیاست کی جائے گی۔
ان کا کہنا ہے کہ ’موجودہ حکومت نے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کر دیا ہے۔ نگران سرکار نے بھی جاتے ہوئے گیس 67 فیصد تک مہنگی کر دی ہے۔ ان حالات میں انڈسٹری چلانا ناممکن ہے۔
’آج سے تین سال پہلے میری فیکٹری کے پاس آرڈرز لینے کا وقت نہیں تھا اور آج وہ روز مرہ کے اخراجات بھی نہیں نکال پا رہی۔ میں نئی حکومت کو کامیاب اس وقت مانوں گا جب وہ مجھے ان مسائل سے نکالے گی۔‘
ان کے مطابق ’اگر ایسی پارٹی کی حکومت بنے گی جس کے پاس عوامی مینڈیٹ سب سے زیادہ ہے تو یقیناً تاجر برادری کی امنگوں کے مطابق پالیسیز بنائے گی۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’اگر درآمدات کے مسائل حل نہیں ہوتے تو مجبوراً انہیں بھی اپنا بزنس دبئی منتقل کرنا پڑے گا۔‘
سابق حکومتی مشیر ڈاکٹر فرخ سلیم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’نئی حکومت کے لیے سب سے پہلا امتحان آئی ایم ایف کا آئے گا۔ مارچ میں پروگرام ختم ہو رہا ہے اور فوراً نئے آئی ایم ایف پروگرام میں جانا ہو گا۔
’اگلا پروگرام پہلے سے بڑا ہو گا کیونکہ 25 ارب ڈالرز کے قرض ادا کرنے ہیں اور آئی ایم ایف کی سپورٹ کے بغیر ان کی ادائیگی مشکل ہو سکتی ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’دنیا میں پالیسی ریٹ نیچے آ رہا ہے لیکن پاکستان میں یہ ابھی تک بلند ترین سطح پر ہے۔ جب تک ملک میں مہنگائی کم نہیں ہو گی آئی ایم ایف پالیسی ریٹ نیچے آنے نہیں دے گا۔
’مہنگائی کم کرنے کے لیے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں کمی لانا ہو گی۔ بجلی گیس کی قیمتیں نیچے لانے کے لیے ضروری ہے کہ توانائی کے شعبے میں چوری کو روکا جائے۔
’بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں تقریباً 580 ارب روپے کا سالانہ نقصان کر رہی ہیں۔ گیس فراہم کرنے والی دونوں کمپنیاں تکنیکی طور پر ڈیفالٹ ہیں۔‘
ان کے مطابق: ’تقریباً 20 فیصد گیس چوری ہوتی ہے جس پر قابو نہیں پایا جا رہا۔ نئی حکومت کے لیے ان مسائل سے نکلنا مشکل ہے۔ بجلی گیس کی قیمتیں بڑھانا کوئی حل نہیں ہے۔ پچھلے 10 سالوں سے قیمتیں بڑھائی جا رہی ہیں لیکن نقصان کم ہونے کی بجائے بڑھ رہا ہے۔
’بہترین حل پرائیوٹائزیشن ہے۔ اس سے بجلی گیس کے ریٹس بھی نیچے آ سکتے ہیں اور گردشی قرضوں کا بوجھ بھی کم ہو سکتا ہے۔ نئی بننے والی حکومت کے لیے یہ فیصلے مشکل ہو سکتے ہیں۔‘
ان کے مطابق: ’پی آئی اے سمیت دیگر نقصان میں چلنے والے ادارے بھی پرائیوٹائز کرنے سے نئی حکومت کے مسائل کم ہوں گے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ ’پی آئی اے کی پرائیوٹائزیشن دو کمپنیوں میں تقسیم کر کے ہو رہی ہے۔ ماضی میں میں نے ہی یہ تجویز دی تھی۔ گو کہ اس طریقہ کار سے پی آئی اے کے 250 ارب روپے کے قرضے حکومت کو ادا کرنا ہوں گے۔
’پی آئی اے کو پرائیوٹائز کرنے کا اس سے بہتر طریقہ موجود نہیں ہے۔ مجھے امید ہے کہ نئی حکومت اس معاملے کو بہتر انداز میں لے کر چلے گی کیونکہ یہ معاملہ آئی ایس ایف سی کے سامنے بھی ہے۔‘
سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’نئی حکومت کی معاشی پالیسیز کے حوالےسے زیادہ فکر کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ملک کو معاشی طور پر سنبھالنے کے لیے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) موجود ہے۔‘
ان کے مطابق: ’آئی ایم ایف بھی بظاہر مطمئن ہے لیکن الیکشنز کے بعد جو صورت حال بن رہی ہے اس سے عالمی اداروں میں ملک کے لیے کچھ مشکلات سامنے آ سکتی ہیں۔‘
کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جزل سیکریٹری ظفر پراچہ نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پاکستان میں مخلوط حکومت بننے کے امکانات ہیں۔ ایسی حکومت سے متعلق عالمی مالیاتی اداروں کی رائے زیادہ اچھی نہیں ہوتی۔ کیونکہ کب عدم اعتماد کی تحریک آجائے اور حکومت گھر چلی جائے، پتہ نہیں چلتا۔ اس سے معاشی پالیسیز اور سٹرکچر بری طرح متاثر ہوتا ہے۔
’ایسے حالات میں قرض سخت شرائط پر ملتا ہے۔ پاکستان کو صرف آئی ایم ایف سے نہیں بلکہ دوست ممالک سے بھی قرض لینا ہے۔ پہلے بھی دوست ممالک نے انتہائی مہنگے قرض دیے تھے۔ جو پاکستان ابھی تک ادا نہیں کر سکا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ایک صورت میں نئی حکومت کے لیے مشکلات کم ہو سکتی ہیں۔ اگر وہ ایس آئی ایف سی کو قانونی تحفظ دیں اور اس کی پالیسیز کو آگے لے کر چلیں۔ کیونکہ یہ ادارہ تقریباً دو سال سے کام کر رہا ہے اور معاشی میدان میں کافی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔
’گو کہ مارکیٹ میں ڈالر کے حوالے سے مختلف دعوے کیے جا رہے ہیں لیکن میرے مطابق اگر ایس آئی ایف سی کو نئی حکومت سپورٹ کرتی رہی تو ڈالر کی قیمت میں زیادہ اتار چڑھاؤ بھی نہیں ہو سکے گا اور مارکیٹ میں استحکام آ سکتا ہے۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔