ایران پاکستان کشیدگی، کیا معیشت بھی متاثر ہو گی؟

پاکستان اور ایران کے درمیان تجارتی حجم تقریباً دو ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ پاکستان ایران سے تقریباً 150 سے زیادہ اشیا درآمد اور تقریباً 10 اشیا برآمد کرتا ہے۔

کوئٹہ شہر کے مضافات میں سڑک کے کنارے ایک سٹیشن پر ایرانی پیٹرول سے بھرے پلاسٹک کے کنستر موجود ہیں(روئٹرز)

سلیم (فرضی نام) ایک نجی کمپنی میں ملازم ہیں۔ ان کی تنخواہ ماہانہ 20 ہزار روپے ہے، جس میں گھر کا خرچ چلانا ان کے لیے ناممکن ہو چکا تھا۔

فیس نہ ہونے کی وجہ سے بچوں کو سکول سے ہٹا لیا گیا تھا اور انہوں نے موٹرسائیکل بھی فروخت کردی۔ پھر انہوں نے دوست کے ساتھ مل کر ایرانی کھجوریں اور دیگر ایرانی مصنوعات بیچنے کا پارٹ ٹائم کام شروع کیا، جو بہتر چل رہا ہے۔ نئی بائیک بھی خریدی اور بچے بھی سکول جانے لگے ہیں۔

انہوں نے خبر پڑھی کہ ’ایران کی جانب سے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی اور پنجگور میں میزائل حملے کے جواب میں پاکستان نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے ایران میں عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر کامیاب ٹارگٹڈ حملے کیے ہیں۔ پاکستان نے ایرانی سفیر کو بھی وطن واپسی سے روک دیا اور پاکستانی سفیر کو واپس بلا لیا گیا۔‘

یہ خبر ان پر ایٹم بم بن کر گری۔ وہ سوچنے لگے کہ اگر ایران اور پاکستان کے درمیان کشیدگی یونہی جاری رہی تو ایرانی مصنوعات کی درآمدات پر پابندی لگ جائے گی، پارٹ ٹائم کاروبار بند ہو جائے گا اور ان کے معاشی حالات دوبارہ خراب ہو جائیں گے، تاہم خوش قسمتی سے اب ایسا نہیں ہے اور گذشتہ روز ہی پاکستان نے کشیدگی ختم کرکے ایران سے تعلقات بحال کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

تام انڈپینڈنٹ اردو نے اس حوالے سے حقائق جاننے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان اور ایران میں کشیدگی کے معیشت پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے تھے۔

کوئٹہ چیمبر آف کامرس کے سینیئر نائب صدر آغا گل خلجی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پاکستان اور ایران کے درمیان تجارتی حجم تقریباً دو ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ پاکستان ایران سے تقریباً 150 سے زیادہ اشیا درآمد کرتا ہے، جن میں پیٹرولیم مصنوعات، کھانے کا تیل، خشک دودھ، سیمنٹ، سٹیل، ٹائلز، معدنیات، کافی، چائے، ربڑ، پلاسٹک، کیمیلز، قالین، تارکول سمیت کئی اشیا شامل ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’پاکستان ایران کو تقریباً 10 اشیا برآمد کرتا ہے، جن میں چاول، میڈیکل کا سامان، فرنیچر، غذائی اجناس سمیت کئی دوسری اشیا بھی شامل ہیں۔ پاکستان کی ایران سے درآمدات برآمدات سے زیادہ ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید بتایا کہ ’پاکستان اور ایران کے درمیان بارٹر تجارت کا اجلاس ایک سال پاکستان میں ہوتا ہے اور آئندہ سال ایران میں ہوتا ہے۔ گذشتہ سال پاکستان میں یہ اجلاس ہوا تھا اور اس مرتبہ ایران میں ہونا تھا۔ پاکستان سے سرکاری اور نجی تقریباً 45 افراد کا وفد اس وقت ایران میں موجود تھا، جب تہران نے پاکستان پر حملہ کیا، جس کے بعد وزرات خارجہ کی ہدایت پر وہ وفد میٹنگ ادھوری چھوڑ کر پاکستان واپس آ گیا۔‘

بقول آغا گل خلجی: ’اس اجلاس میں بہت سے تجارتی معاملات طے پانے تھے، جو اب التوا کا شکار ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’چند ماہ قبل سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے پاکستان ایران تجارت کو پانچ ارب ڈالرز تک بڑھانے کے لیے معاہدہ کیا تھا اور یہ اجلاس اسی سلسلے کی کڑی تھا۔‘

تاہم ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’سیاست اور تجارت کو الگ رکھا جائے تو بہتر ہے۔ تقریباً 900 کلومیٹر کا بارڈر ہے۔ ایران پاکستان بارڈر کے دونوں اطراف بلوچ قبائل آباد ہیں۔ پنجگور کی آبادی تقریباً پانچ لاکھ ہے۔ یہاں کے عوام کا ذریعہ معاش ایران کی تجارت سے جڑا ہے۔ سرحد بند ہونے کی صورت میں بے روزگاری بڑھے گی اور امن و امان کی صورت حال بھی خراب ہو سکتی ہے۔ معاشی معاملات صرف پاکستانی طرف ہی خراب نہیں ہوں گے بلکہ ایرانی تاجر بھی بری طرح متاثر ہوں گے۔‘

اس سوال کے جواب پر کہ ایران پاکستان بارڈر پر تجارت بند ہوئی ہے یا نہیں؟ انہوں نے بتایا کہ ’جن گاڑیوں کا ٹیکس ادا ہو چکا ہے صرف وہی گاڑیاں بارڈر کراس کر رہی ہیں۔ نئی گاڑیوں کے ٹیکس ادا ہو رہے ہیں نہ وہ بارڈر کراس کر رہی ہیں۔ فی الحال کاروبار منجمند ہے۔‘

’اگر یہ معاملہ طوالت اختیار کرتا تو سٹاک ایکسچیبج مزید نیچے جا سکتی تھی، لیکن امید ہے کہ دونوں اطراف کو سمجھ آ گئی ہے کہ تصادم سے بچا جائے۔‘

شاہد خان (فرضی نام) ایران سے غیر رسمی آئل اور ڈیزل کاروبار کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے سمیت سینکڑوں خاندانوں کا ذریعہ معاش کئی دہائیوں سے یہی غیر رسمی تجارت ہے۔

بقول شاہد: ’اس کے علاوہ یہاں کوئی کام نہیں ہے۔ اگر حالات کشیدہ رہے تو میں اور میرے بچے دربدر ہو جائیں گے۔ ایک اندازے کے مطابق علاقے کے 25 ہزار سے زائد افراد اس کاروبار سے روزی کما رہے ہیں۔‘

کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ایسے حالات میں مافیاز ڈالر ریٹ بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کل گرے مارکیٹ میں ڈالر ریٹ بڑھانے کی کوشش ہوئی۔ مجھ سمیت کئی سٹیک ہولڈرز نے اداروں کو مطلع کیا۔ بروقت کارروائی کی وجہ سے ڈالر ریٹ نہیں بڑھ سکا۔ ماضی میں ایسے موقعوں پر بینک بھی انٹربینک ریٹ بڑھاتے رہے ہیں لیکن اس مرتبہ ایسا کچھ نہیں ہوا اور امید ہے کہ حالات کنٹرول میں رہیں گے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’ایران کی پاکستان کو برآمدات زیادہ ہے، اس لیے ڈالرز کے حوالے سے انہیں زیادہ نقصان ہو گا۔ موجودہ حالات میں ایران کو ڈالرز کی اشد ضرورت ہے۔‘

لاہور ٹیکس بار ایسوسی ایشن کے سابق جنرل سیکریٹری عبدالوحید نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ایران پاکستان قانونی تجارت ٹیکس آمدن کا بڑا ذریعہ ہے۔ ایران پاکستان تجارت سے سالانہ تقریباً 80 ارب روپے سے زیادہ ٹیکس حکومت پاکستان اکٹھا کرتی ہے۔ یہ صرف قانونی تجارت کے اعداد و شمار ہیں اور اگر اسے بہتر طریقے سے منظم کیا جائے تو مزید ٹیکس اکٹھا کیا جا سکتا ہے۔‘

اسی طرح سیالکوٹ چمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے سابق صدر میاں نعیم جاوید نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پنجگور میں متحدہ عرب امارات کی کھجور کے حوالے سے تقریباً 700 ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری ہے۔ اس کے علاوہ یو اے ای نے پاکستان کے ساتھ تجارتی معاہدے پر دستخط کیے اور ساتھ ہی ایران سے حملہ ہو گیا۔ سٹاک ایکسچینج پر جو مثبت اثرات آنے تھے وہ منفی میں تبدیل ہو گئے۔ ایران حملے کے بعد بینچ مارک کے ایس ای-100 انڈیکس 1029 پوائنٹس کمی کے بعد 63 ہزار کی نفسیاتی حد سے نیچے آ گیا۔

بقول میاں نعیم جاوید: ’اگر یہ معاملہ طوالت اختیار کرتا تو سٹاک ایکسچیبج مزید نیچے جا سکتی تھی، لیکن امید ہے کہ دونوں اطراف کو سمجھ آ گئی ہے کہ تصادم سے بچا جائے۔‘

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت