نہایت عرق ریزی سے انتخابات کے نتائج سامنے لائے گئے اور وہ میری توقع کے عین مطابق ہی تھے۔
مسلم لیگ (ن) کی کج ادائیوں کے باعث آج بھی وہ لاڈلی جماعت نہیں تھی۔
عوام نے اپنا فیصلہ سنا دیا، عوام اپنا فیصلہ سنا دیتے ہیں۔ احتجاج کرنے والوں کو نو مئی 2023 کا یوم عبرت گھر سے نکلنے نہیں دیتا۔ جوڑ توڑ کرنے والے بغل میں بستے لیے باہر نکلتے ہیں اور آواز لگاتے ہیں ’ہے کوئی جو خود کو بیچے گا؟‘
انمول تو کوئی بھی نہیں۔ جلد ہی سب بک بکا جائیں گے اور جو بکنے سے انکار کرتے ہیں وہ سیاست سے تائب ہو جائیں گے، تب ملک میں ایک نئی حکومت قائم ہو گی۔
پچھلی حکومت جو 2018 کے انتخابات کے نتیجے میں قائم ہوئی تھی ہائبرڈ نظام کی پیداوار سمجھی جاتی تھی۔
یہ حکومت جو اب قائم ہونے جا رہی ہے اس کے لیے ہمارے اینکرز ’پوسٹ ہائبرڈ نظام‘ کی اصطلاح استعمال کریں گے۔ اینکرز بے چارے اس کے سوا کر ہی کیا سکتے ہیں؟
پوسٹ ہائبرڈ نظام سے پیدا کی گئی ’خاکی انڈوں‘ کی یہ حکومت بھی ویسی ہی ہو گی جیسے کہ ہائبرڈ نظام سے نکلے معاشرتی اور سماجی ڈھانچے ہوتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ’ڈنگ ٹپاؤ‘ حکومت۔ ہر شخص اپنا ’شورا لکا‘ کے وقت گزار دے گا۔ تب بھی بہت سے بہت دو سال میں کاٹھ کی یہ ہنڈیا بکھر جائے گی۔
پوسٹ ہائبرڈ کے بعد، ہائپر پوسٹ ہائبرڈ نظام آئے گا اور یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہے گا۔ نہیں حضور، یہ کمپنی نہیں چلے گی، یہ سلسلہ کہیں نہ کہیں ضرور رکے گا ، اسے روکنا پڑے گا۔
میدان کے کونے میں سے گیند لے کے دوڑنے والے کو آپ نے پہلے انسان دوست کی شکل دی، پھر سیاستدان بنایا، پھر وزیراعظم بنایا اور اب لیڈر بھی بنا دیا۔
عمران خان جیل میں بیٹھے بیٹھے لیڈر بن گئے اور اب تاریخ میں ان کا نام جب بھی آئے گا مزاحمت کی علامت بن کے آئے گا، ایک پلے بوائے سے ایک انقلابی لیڈر تک کی اس کھڑکی توڑ فلم کا سکرپٹ ان ہی مہربانوں نے لکھا جنہوں نے اپنے لیے ولن کا کردار لکھ کے قلم توڑ دیا۔
مجھے 2018 کے انتخابات کے بعد عمران خان کی تقریر اور حلف برداری کی تقریب میں ان کی بوکھلاہٹ یاد آرہی ہے۔ وہ ایک مضحکہ خیز فتح تھی۔
آج قیدی نمبر 804 مزاحمت کی علامت بن گیا۔ بنانے والوں کے صدقے جائیے، انہوں نے ہی مریم بی بی کو لیڈر بنایا تھا۔ بھٹو کو زندہ رکھنے والے بھی یہ ہی ہیں اور ابھی تو دیکھیے امین گنڈا پور کے امر ہونے کا وقت بھی قریب ہے۔
مریم بی بی اگر پنجاب کی وزارت اعلیٰ پہ آتی ہیں تو ہمیں بہت خوشی ہو گی کہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کی وزارت اعلیٰ ایک خاتون کو ملی۔ گذشتہ صعوبتوں کو بھی انہوں نے بڑی ہمت سے جھیلا۔
کے پی کے میں اگر پی ٹی آئی کی حکومت بنے گی، تو بھی یہ اس کا حق ہے۔ سندھ پھر سے پیپلزپارٹی کے ہاتھ رہے گا اور بلوچستان میں ایک بار پھر مخلوط حکومت بنے گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ واضح رجحانات ہیں۔ جن میں صوبائیت کا عنصر صاف نظر آرہا ہے، کسی بھی جماعت کو قومی جماعت نہیں بننے دیا گیا۔ پچھلے پچاس برس کے انتخابات کے نتائج اٹھا کر دیکھ لیں۔ تنزلی کا سفر نظر آئے گا۔
اطمینان کی بات صرف اتنی ہے کہ انتخابات ہوئے، جمہوریت چل رہی ہے۔ وینٹی لیٹر پہ بھی ہے تو کیا، ابھی سانس لے رہی ہے، کیا پتہ معجزہ ہو جائے؟
آئیے ہاتھ اٹھائیں ہم بھی
ہم جنہیں رسم دعا یاد نہیں
ہم جنہیں سوز محبت کے سوا
کوئی بت کوئی خدا یاد نہیں
پس نوشت: تحریر سپرد ای میل کرنے ہی والی تھی کہ خبر ملی کمشنر راولپنڈی نے انتخابی دھاندلی کا نوٹس لیا ہے یعنی فلم ابھی باقی ہے میرے دوست۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔