آٹھ فروری کو پاکستان کے ’متنازع ترین‘ انتخابات کے بعد نتائج تقریباً مکمل ہو چکے ہیں، جس کے بعد پاکستانیوں کی اکثریت نے سکون کا سانس لیا۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ گذشتہ کئی مہینوں سے قید اور سینکڑوں مقدمات میں الزامات کا سامنا کرنے والے پاکستان کے ’مقبول ترین‘ رہنما عمران خان سٹیبلشمنٹ کے خلاف سیاسی لڑائی جتنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
کئی لوگوں کا ماننا ہے کہ پارلیمان سے باہر سیاسی تنازعات اور کڑوا ترین وقت اب ممکنہ طور پر ماضی کا حصہ ہے۔
کچھ مخصوص نتائج کو چھوڑ کر عمومی نتائج کے بعد سیاسی مفاہمت کا امکان بڑھ گیا ہے۔
انتخابات کے بہت سے حیران کن نتائج میں سے تین قابل ذکر ہیں۔ پہلا یہ کہ پاکستان مسلم لیگ ن، جس کی قیادت نے 2018 میں شکست کھانے کے بعد دوبارہ اقتدار میں آنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کا سہارا لیا، نتائج کے بعد کافی مایوسی کا شکار ہے۔
مسلم لیگ ن اور اس کے قائد نواز شریف کلین سویپ کی امید لگائے بیٹھے تھے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ان کی جماعت نے قومی اسمبلی میں 70 سے زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے جب کہ پاکسان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے 100 کے قریب سیٹوں پر کامیابی سمیٹی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ مسلم لیگ ن اپنے طور پر حکومت نہیں بنا سکتی۔
صوبہ پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت بنانے کا امکان ہے جہاں پی ٹی آئی ان سے چند سیٹیں ہی پیچھے ہے، اس لیے مسلم لیگ ن کی صفوں میں مایوسی چھائی ہوئی ہے۔
جہاں پورا شریف خاندان، کم از کم چھ، اپنی اپنی نشستیں جیت چکا ہے، وہیں مسلم لیگ ن کے کئی بڑے رہنما بشمول تجربہ کار وزرا جیسے خرم دستگیر اور رانا ثنا اللہ کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔
درحقیقت پنجاب کے بڑے شہروں بشمول گوجرانوالہ، فیصل آباد اور شیخوپورہ سے مسلم لیگ ن سے منسوب گرینڈ ٹرنک (جی ٹی) روڈ کی شناخت فی الحال مٹ چکی ہے۔
دوسرا یہ کہ عمران خان کی عدم موجودگی میں پی ٹی آئی سے انتخابات میں اچھی کارکردگی کی توقع نہیں تھی، اس لیے نہیں کہ اسے عوام کی حمایت حاصل نہیں تھی بلکہ اس لیے کہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد نو مئی 2023 کو پی ٹی آئی کے کارکنوں کی جانب سے فوجی تنصیبات پر دھاوا بولنے کے بعد مبینہ طور پر طاقتور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی اعلیٰ کمان اس کی شکست کی خواہاں تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بہت سے لوگوں کو پہلے ہی اندازہ تھا کہ ان انتخابات میں پی ٹی آئی کا نام مٹانے کے لیے ہر ممکنہ ہتھکنڈے استعمال کیے جائیں گے۔ انتخابات سے پہلے پی ٹی آئی کو انتخابی نشان ’بلے‘ سے محروم کر دیا گیا اور پی ٹی آئی کی چھتری تلے الیکشن لڑنے کی کوشش کرنے والے آزاد ارکان کے خلاف ریاستی طاقت، قید و بند، ہراسانی، ٹارگٹڈ حملے، وکٹمائزیشن اور قانون نافذ کرنے والی فورسز کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔
عوامی عزم اور جرات، جو پی ٹی آئی کے لیے ڈالے گئے ووٹوں سے ظاہر ہوتی ہے، کے برعکس قابل اعتراض عدالتی فیصلے اور ان کے رہنما کی سزا اور قید و بند سے توڑنے کی کوشش کی گئی۔
عمران خان نے تقریباً 66 سال سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ عوامی طاقت ہی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے منصوبوں کو ناکام بنا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر عدلیہ نے پی ٹی آئی کو انتخابی نشان سے محروم کر دیا اور انتخابات کے دوران پارٹی کو مؤثر طریقے سے انتخابی مہم چلانے سے روکا گیا جیسا کہ لاکھوں پاکستانی ووٹرز کے لیے پی ٹی آئی کے سینکڑوں قومی اور صوبائی امیدواروں کے انفرادی انتخابی نشان یاد رکھنا ایک بڑا چیلنج تھا۔ اس کے باوجود عوام نے ملک بھر میں پی ٹی آئی کے امیدواروں کو مایوس نہیں کیا۔
انتخابی نتائج کا اعلان تقریباً مکمل ہو گیا اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار 97 نشستوں کے ساتھ قومی اسمبلی کی دوڑ میں آگے ہیں اور مسلم لیگ ن 71 اور پی پی پی 54 نشستوں کے ساتھ بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔ تاریخ ساز نتائج میں خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی نے ان انتخابات میں کلین سویپ کیا ہے۔ ملک کے دوسرے سرے یعنی کراچی میں بھی پی ٹی آئی نے کئی نشستیں حاصل کی ہیں۔
تیسرا یہ کہ پی ٹی آئی کے سابق بڑے رہنما، جنہوں نے عمران خان ان سے راہیں جدا کر لی تھیں، کو انتخابات میں شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ماضی میں عمران خان کے اہم معتمد اور حامی جہانگیر ترین اور ان کے سابق وزیر اعلیٰ اور وزیر دفاع پرویز خٹک دونوں ہی جیتنے میں ناکام رہے ہیں۔ باغی رہنماؤں نے عمران خان کی بظاہر ڈوبتی ہوئی کشتی سے اترنے کی بھاری قیمت چکائی ہے۔ پرویز خٹک کی پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والے خٹک خاندان کے تمام سات ارکان ہار گئے ہیں۔
پی ٹی آئی کے لیے اب بھی سب کچھ ٹھیک نہیں ہے کیونکہ کئی سیٹوں سے اس کے امیدواروں نے نتائج کو چیلنج کر رکھا ہے۔ انتخابی نتائج شیئر کے طریقہ کار پر اس کے ارکان سوال اٹھا رہے ہیں۔ کچھ اس معاملے کو عدالتوں میں لے گئے ہیں۔ اگلی حکومت میں پی ٹی آئی کے کردار کے ساتھ ساتھ قانونی لڑائیاں بھی زور پکڑیں گی۔
پی ٹی آئی کے لیے یہ اب بھی مشکل وقت ہے کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اس کے بہت سے اہم معاملات پر مسائل حل طلب ہیں، بشمول اس کے کہ نو مئی کی کہانی کو کیسے ختم کیا جائے گا۔
اب وقت آگیا ہے کہ پی ٹی آئی کے رہنما عمران خان، پارٹی اور ملک کو آگے بڑھانے کے لیے بہترین راستے کے بارے میں سوچیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔