کراچی لٹریچر فیسٹیول: ڈیجیٹل کانٹینٹ کے معیار کو کیسے بہتر بنایا جائے؟

کراچی لٹریچر فیسٹیول کے دوران معروف ولاگرز نے نوجوانوں کو ڈیجیٹل مواد کی تیاری اور معیار کے حوالے سے مشورے بھی دیے۔

17 فروری، 2024 کی اس تصویر میں کراچی لٹریچر فیسیٹول کے دوران کانٹینٹ کریئٹر سوشل میڈیا مواد کی تیاری پر ہونے والے سیشن میں شریک ہیں(انڈپینڈنٹ اردو)

پاکستان سے سب سے بڑے شہر کراچی میں جاری ادبی میلے ’کراچی لٹریچر فیسٹیول‘ کے دوران معروف کانٹینٹ کریئٹرز اور ولاگرز کا کہنا ہے کہ اگر مواد ویوز اور لائکس کے بجائے معیار پر توجہ دے کر بنایا جائے تو وہ کامیاب ہو سکتا ہے۔

کراچی کے ایک نجی ہوٹل میں 16 فروری سے شروع ہونے والے کراچی لٹریچر فیسٹیول کے دوسرے روز ہفتے کو منعقد ہونے والی ایک بیٹھک ’ولاگ یولیشن (ولاگ اویولیشن) : کانٹینٹ بیانڈ لائکس‘ میں شریک ڈیجیٹل کریئٹرز نے ولاگر بننے کی خواہش رکھنے والے نوجوانوں کو مشورہ دیا ہے کہ ’وہ کسی معروف ڈیجیٹل کریئٹر کی ہوبہو کاپی کرنے کے بجائے اپنا سٹائل اپنائیں تو ہی کامیاب ہو سکتے ہیں۔‘

بیٹھک کی ماڈریٹر معروف اداکارہ اور ویڈیو جوکی (وی جے) انوشے اشرف کے سوال کے جواب میں ولاگر بلال حسن نے کہا کہ ’عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ ڈیجیٹل کانٹینٹ کے شعبے میں آنے والے نوجوان کسی معروف ولاگر کے بولنے کے انداز یا سٹائل کی کاپی کرتے ہیں، ایسا کرنے سے وہ کامیاب ڈیجیٹل کریئٹر نہیں بن سکتے۔‘

بلال حسن کے مطابق: ’کامیابی کے لیے نوجوانوں کو خود کو متعارف کرانا ہوگا۔ وہ جیسے ہیں ویسے رہیں۔ اپنے سٹائل سے کام کریں تب ہی انہیں پسند کیا جائے گا۔‘

انوشے اشرف کے سوال کہ ’ڈیجیٹل کانٹینٹ کی مانگ میں بے پناہ اضافے کے بعد اب یہ تصور کیا جا رہا ہے کہ ایک کامیاب ڈیجیٹل کانٹینٹ کریئٹر کو مسلسل مواد اپلوڈ کرنا لازم ہو گیا ہے؟‘

اس کے جواب میں پینل میں شریک ولاگر قاضی اکبر کہا کہ ’لائکس اور ویوز کے چکر میں مسلسل مواد بنانے کے بجائے مواد کے معیار کو مدنظر رکھا جائے۔

’لائکس 500 ہوں یا پانچ ہزار ہوں اس سے فرق نہیں پڑتا۔ یہ بات ڈیجیٹل کانٹینٹ کریئٹر کو سپانسر کرنے والے برانڈز کو بھی سمجھنا چاہیے۔

’دنیا بھر کے 75 فیصد آن لائن مواد دیکھنے والے لوگ برانڈ کا اشتہار دیکھنے کے بجائے معاری مواد دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس لیے نوجوان مسلسل مواد اپلوڈ کرنے کا پریشر لینے کے بجائے مواد کے معیار کو مدنظر رکھیں۔‘

پینل میں شریک ڈیجیٹل کریئٹر اسامہ ناصر نے کہا کہ ’مسلسل مواد بنانے کے پریشر کو میں نے سینجیدہ سے لیا۔ مگر اس کا ایک نقصان ہوا کہ مسلسل مواد بنانے سے ایک ویڈیو نے آن لائن اچھا پر فارم کیا تو دوسری ویڈیو بلکل نہیں چلی۔ جس سے مجھے محسوس ہوا کہ میں کوئی غلطی کر رہا ہوں۔‘

’اگر صرف لائکس ہی چاہییں تو میں کیوں نہ ٹک ٹاکر بن جاؤں اور صرف ایک ڈانس کی ویڈیو لگاؤں اور لائکس مل جائیں گے۔ مگر لائکس کے لیے غیر معیاری مسلسل چلانے والے مواد کے بجائے انتہائی منصوبہ بندی کے بعد بنائے جانے والے مواد کو ترجیح دی۔ خود کو سمجھایا کہ میرے مواد پر 10 لاکھ ویوز نہیں آئے مگر 10 ہزار لوگوں نے تو دیکھا۔ 10 ہزار لوگ کم نہیں ہوتے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈیجیٹل کانٹینٹ پر صارفین کی بے جا تنقید اور گالیاں دینے کے رجحان پر بات کرتے ہوئے ڈجیٹل کریئٹر امتُل باویجا نے کہا کہ ’اگر کسی کو تنقید کرنی تو وہ مواد کے معیار پر تنقید کرے، مواد کی بہتری کے لیے مشورے دے سکتے ہیں جو ایک مثبت بات ہے مگر ذاتی طور پر حملے کرنا مناسب نہیں۔

’میں آن لائن بے جا تنقید کرنے والوں سے پوچھتی ہوں کہ آپ جو آن لائن کمنٹ کررہے ہیں کیا یہ کمنٹس آپ اس فرد کو روبرو دے سکتے ہیں؟ اگر آپ کسی پر کسی قسم کی تنقید روبرو نہیں کر سکتے تو آپ وہ آن لائن کیوں کر رہے ہیں؟

’اس بے جا تنقید اور لائکس نہ آنے والے معاملے پر ایک ڈیجیٹل کانٹینٹ کریئٹر کو سمجھنے میں وقت لگتا ہے۔ ان پر اپنا وقت ضائع کرنے کے بجائے آپ بہتر مواد بنانے میں اپنا وقت لگائیں۔‘

اس سوال کہ کیا ڈیجیٹل کانٹینٹ کی تیاری کو ایک فل ٹائم نوکری کی طرح روزگار کا ذریعہ بنایا جاسکتا ہے؟ کے جواب میں اسامہ ناصر نے کہا: ’ڈیجیٹل کانٹینٹ کریئشن کو ایک فل ٹائم نوکری کی طرح روزگار کا ذریعہ بنایا جا سکتا اگر آپ اس کام کو ایک نوکری کی طرح صبح نو بجے سے شام پانچ بجے تک اسی طرح کریں جس طرح آپ نوکری کرتے ہیں تو یہ آپ کے روزگار کا ذریعہ بن سکتا ہے۔‘

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین