کینیڈا میں 2021 میں جان بوجھ کر ایک مسلمان خاندان کے چار افراد کو اپنے پک اپ ٹرک سے کچل کر مارنے والے سفید فام قوم پرست کو جمعرات کو عمر قید کی سزا سنا دی گئی، جس میں 25 سال تک پیرول کا کوئی امکان نہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق 23 سالہ نیتھانیئل ویلٹ مین کو نومبر 2021 میں ایک ایسے حملے کے لیے فرسٹ ڈگری قتل کا مجرم پایا گیا تھا جس نے کینیڈا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔
کینیڈین اخبار لندن فری پریس کی رپورٹ کے مطابق مجرم نے اس فیصلے پر بہت کم ردعمل ظاہر کیا۔
مقدمے کی سماعت کرنے والے جج نے کہا کہ ویلٹ مین کا حملہ دہشت گردی کی کارروائی کی ہے۔ ملک میں پہلی بار یہ اصطلاح سفید فام قوم پرستی کے کسی بھی تشدد کو بیان کرنے کے لیے استعمال کی گئی۔
ویلٹ مین نے پاکستانی نژاد افضال خاندان کے پانچ افراد کو صوبہ اونٹاریو کے شہر لندن میں اس وقت اپنے ٹرک کے نیچے کچل دیا تھا جب وہ جون 2021 میں شام کی سیر کے لیے نکلے تھے۔
اس واقعے میں مارے جانے والوں میں 46 سالہ سلمان افضل، ان کی اہلیہ 44 سالہ مدیحہ سلمان، ان کی 15 سالہ بیٹی یمنیٰ اور افضل کی 74 سالہ والدہ طلعت شامل تھیں۔
سلمان کی والدہ تابندہ بخاری نے عدالتی فیصلے کے بعد کہا کہ ہمیں نہیں معلوم کہ یہ اختتام ہے یا انصاف، لیکن ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ اس فیصلے سے ہمارے پیارے واپس نہیں آئیں گے۔‘
انہوں نے عدالت کے باہر صحافیوں کو بتایا: ’یہ مقدمہ صرف ایک انفرادی فعل کے بارے میں نہیں تھا۔ یہ ہمارے معاشرے کے اندر گہرائی میں موجود فالٹ لائن کی واضح یاد دہانی تھی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
2017 میں کیوبیک سٹی کی ایک مسجد میں فائرنگ سے چھ افراد کی اموات کے بعد سے یہ کینیڈا میں مسلمانوں کے خلاف بدترین حملہ تھا۔
مقدمے کی وکیل کراؤن اٹارنی سارہ شیخ نے اس فیصلے کے بارے میں کہا کہ ویلٹ مین نے ایک ’انفرادی گھناؤنے‘ جرم کا ارتکاب کیا تھا، جس کا مقصد مجموعی طور پر مسلمانوں سے نفرت تھی۔
انہوں نے کہا کہ ایک آزاد اور جمہوری معاشرے میں ایک پوری کمیونٹی کے خلاف نفرت اور نظریاتی تشدد کو کبھی برداشت نہیں کیا جا سکتا۔
حملے میں مارے جانے والے جوڑے کا نو سالہ بیٹا بھی شدید زخمی ہوا تھا۔ حملے کے فوراً بعد ویلٹ مین نے کہا تھا: ’میں نے یہ کیا ہے اور میں نے ان لوگوں کو مار ڈالا۔‘
ویلٹ مین نے قتل کے الزامات کا اعتراف نہیں کیا۔ ان کے وکیل دفاع نے ویلٹ مین کے ذہنی چیلنجز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ کارروائی ’قتل عام‘ کے زمرے میں نہیں آتی۔
لیکن کیس سننے والے جج جسٹس رینی پومرنس نے ان دلائل سے اتفاق نہیں کیا۔ کینیڈین براڈکاسٹنگ کارپوریشن کے مطابق جج نے کہا: ’مجھے لگتا ہے کہ مجرم کی کارروائی دہشت گردی کی سرگرمی ہے۔‘
استغاثہ نے نوٹ کیا کہ ویلٹ مین نے ’اے وائٹ اویکینگ‘ کے عنوان سے ایک منشور لکھا تھا جس میں انہوں نے اسلام سے نفرت اور بڑے پیمانے پر امیگریشن اور کثیر ثقافتی معاشرے کی مخالفت کا خاکہ پیش کیا تھا۔
وکیل دفاع کرسٹوفر ہکس نے اس مقدمے کے حالات، جسے وہ ایک طویل اور مشکل ٹرائل سمجھتے ہیں، کے بارے میں کہا کہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ اس میں دہشت گردی کا محرک ناگزیر تھا۔ ممکنہ اپیل کے بارے میں پوچھے جانے پر انہوں نے کہا کہ ’اپیل کے عناصر موجود ہیں تاہم پہلے ویلٹ مین سے مشورہ کرنے کی ضرورت ہوگی۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔