پاکستان میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں آٹھ فروری کو انتخابات کے بعد اراکین اسمبلی نے جمعے کو حلف اٹھا لیا۔
ارکان اسمبلی کم و بیش ایک سال بعد آج 10 بجے بلائے گئے اجلاس کے لیے صبح سویرے ہی پہنچنا شروع ہو گئے۔
ہم بھی اجلاس کی کوریج کے لیے ایوان اقبال چوک پہنچے تو دیکھ کر ہی اندازہ ہوگیا کہ اجلاس کے لیے سکیورٹی غیر معمولی کیونکہ گاڑیاں تو دور کی بات پیدل بھی پوچھ گچھ کے بعد جانے کی اجازت دی جا رہی تھی۔
کچھ فاصلے پر پنجاب اسمبلی کے مرکزی دروازے پر پولیس اہلکاروں کی دو قطاریں بنی ہوئی تھیں جو دروازے کے پاس کسی کو کھڑا نہیں ہونے دے رہے تھے۔
پوچھ گچھ کے بعد جانے کی اجازت ملی تو اندر میڈیا کے نمائندوں اور اراکین کا رش دیکھا۔
ایوان میں صرف پاکستان مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ق کے اراکین دکھائی دیے اور پاکستان تحریک انصاف کے آزاد امیدواروں کا کہیں پتہ نہیں تھا۔
ایک گھنٹہ گزر گیا اور سپیکر اسمبلی سبطین خان اسمبلی نہیں پہنچے تو صحافیوں اور اراکین میں چہ مگوئیاں شروع ہوگئیں کہ شاید پی ٹی آئی سے وابستہ سپیکر اجلاس میں کوئی بحران پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔
ہم جب ایوان کے ساتھ ہی موجود پریس گیلری میں آئے تو دیکھا کہ قائد ایوان کی خالی کرسی کے ساتھ والی نشست پر برا جمان ن لیگ کی امیدوار برائے وزارت اعلیٰ مریم نواز مریم اورنگزیب سے گفتگو میں مصروف تھیں جبکہ اپوزیشن بینچیں ویران نظر آئیں۔
سپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان کے اسمبلی پہنچنے کے کچھ دیر میں سنی اتحاد کونسل کے اراکین بھی پہنچ گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے ایوان نعروں سے گونج اٹھا۔
بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھے سنی اتحاد کونسل کے اراکین عمران خان جبکہ ن لیگی ارکان نواز شریف کے حق میں نعرے لگاتے دکھائی دیے۔
سپیکر کے آنے پر ہاؤس ان آرڈر ہوا تو سنی اتحاد کونسل نے مطالبہ کیا کہ ان کے پورے ممبران ابھی نہیں آئے لہٰذا حلف برداری روکی جائے، یوں نماز جمعہ کے لیے اجلاس میں وقفہ کر دیا گیا۔
اجلاس کی کارروائی دوبارہ شروع ہوئی تو سپیکر نے اراکین کو اگلے دن یعنی ہفتے کو سپیکر کے انتخاب کے شیڈول سے متعلق آگاہ کیا اور حلف برداری شروع کر دی۔
سنی اتحاد کونسل کے 97 جبکہ مسلم لیگ ن اور اتحادیوں کے کل 215 ممبران نے حلف اٹھایا۔ ابھی سنی اتحاد کونسل کو 27 مخصوص نشستیں نہیں مل سکیں۔
حلف لینے کے بعد سپیکر نے سب کو مبارک باد دی اور حلف ناموں پر دستخط کرائے۔ اس دوران نعرے بازی جاری رہی لیکن کارروائی نہ رکی۔
ایوان میں مہمانوں کی گیلری میں ن لیگ کے رہنما اسحاق ڈار، پرویز رشید و دیگر موجود تھے جبکہ پی ٹی آئی رہنما عامر ڈوگر بھی گیلری سے ایوان کی کارروائی کا جائزہ لیتے رہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سنی اتحاد کونسل کے ممبران نے مریم نواز کے خلاف نعرے لگانے کی تین چار بار کوشش کی لیکن اکثریتی ممبران نے زیادہ نعروں سے اسے ناکام بنا دیا۔
آج سنی اتحاد کونسل کے نامزد امیدوار برائے وزیر اعلیٰ میاں اسلم اقبال حلف اٹھانے کے لیے نہیں پہنچے۔ ان کے خلاف نو مئی کے مقدمات درج ہیں لہٰذا لاہور پولیس نے میڈیا کے ذریعے اعلان کیا تھا کہ میاں اسلم کو یہاں پہنچتے ہی گرفتار کر لیا جائے گا۔
ایوان میں سنی اتحاد کے اراکین نے بلند آواز میں دعویٰ بھی کیا کہ انہیں گرفتار کر لیا گیا ہے، تاہم اس حوالے سے کوئی حکومتی موقف سامنے نہیں آیا۔
اسمبلی میں مختلف خواتین اور مرد اراکین نے مریم نواز سے ملنے کی کوشش کی لیکن وہ سیٹ پر بیٹھ کر ہی سب کو سلام کا جواب دیتی رہیں۔
آج حلف برداری کی تقریب کے بعد کل خفیہ رائے شماری سے نئے سپیکر کا انتخاب ہوگا جس کے بعد نئے سپیکر ڈپٹی سپیکر منتخب ہوں گے۔ اس کے بعد شو آف ہینڈ سے نئے وزیر اعلیٰ پنجاب کا انتخاب ہو گا۔
عددی اکثریت کے باعث سپیکر، ڈپٹی سپیکر اور قائد ایوان مسلم لیگ ن کا منتخب ہونے کی توقع کی جا رہی ہے۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔