سنی اتحاد کونسل: انتہا پسندی کے خلاف اتحاد سے تحریک انصاف سے اتحاد کا سفر

پاکستان تحریک انصاف نے سنی اتحاد کونسل کے ساتھ اتحاد کر لیا ہے اور اپنے کامیاب اراکین کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کا اعلان کیا۔

سنی اتحاد کونسل کے سربراہ صاحبزادہ حامد رضا پی ٹی آئی کے رہنما اور سابق وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ (حامد رضا ایکس)

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے سنی اتحاد کونسل کے ساتھ اتحاد کر لیا ہے اور اپنے کامیاب آزاد اراکین کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کا اعلان کر دیا ہے۔ 

پی ٹی آئی کے رہنما بیرسٹر گوہر علی نے پیر کی شام میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ آٹھ فروری کے انتخابات میں ان کی جماعت کی حمایت سے کامیاب ہونے والے آزاد امیداروں نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کر لی ہے اور اس سلسلے میں بیانات حلفی جماعت کے حوالے کر دیے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ مذکورہ بیانات حلفی جلد ہی قومی اسمبلی اور پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلیوں کے سیکریٹیریٹس کے حوالے کر دیے جائیں گے۔

آزاد امیدواروں کو الیکشن کمیشن کی جانب سے حتمی نوٹیفیکیشن جاری ہونے کے بعد تین دن (72 گھنٹوں) کے اندر کسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنا ہوتی ہے۔ 

پی ٹی آئی کی جانب سے پہلے جماعت اسلامی سے اتحاد کی بات کی گئی تھی لیکن بعد میں دونوں جماعتوں کے مابین معاملات طے نہ ہونے کے باعث ایسا نہیں ہو سکا۔ 

اور اب تحریک انصاف نے مخصوص نشستوں کے حصول کے لیے سنی اتحاد کونسل میں اپنے آزاد اراکین کی شمولیت کا اعلان کیا۔ سنی اتحاد کونسل کوئی مین سٹریم سیاسی جماعت نہیں ہے بلکہ نسبتا چھوٹی مذہبی جماعتوں کا اتحاد ہے۔ 

سنی اتحاد کونسل کیسے بنا؟ 

سنی اتحاد کونسل کی بنیاد 2009 میں رکھی گئی اور سنٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز(سی ار ایس ایس) کے ایک تحقیقی مقالے کے مطابق اس بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے گروہوں کے اتحاد کا مقصد ملک سے انتہا پسندی کا خاتمہ تھا۔

اسی تحقیقی مقالے کے مطابق اس اتحاد میں جمعیت علمائے پاکستان مرکزی (جس کے سربراہ حاجی فضل کریم ہیں)، جماعت اہل سنت، سنی تحریک، عالمی تنظیم اہل سنت، ضیاالامت فاؤنڈیشن، حلقہ صیفیہ، انجمن طلبہ اسلام، تنظیم المدارس، انجمن اساتذہ پاکستان اور دوسرے چھوٹے گروہ شامل ہیں۔ 

سنی اتحاد کونسل نے مارچ 2009 میں ایک بڑا مارچ راولپنڈی میں منعقد کیا تھا اور اسی تحقیق کے مطابق اس مارچ میں 10 ہزار سے زیادہ افراد نے شرکت کی۔ 

اس مارچ میں پاکستان فوج کے شدت پسندی کے خلاف بیانیے کی حمایت کی گئی تھی۔ اس وقت پاکستانی فوج سوات میں عسکریت پسندوں کے خلاف برسرپیکار تھی۔ 

اسی طرح 2010 میں کونسل نے اسلام آباد سے لاہور تک شدت پسندی کے خلاف مارچ کا اعلان کیا اور اس کے بعد 55 ممالک کے ایک ہزار سے زیادہ مفتیان نے پاکستان میں خودکش حملوں کے خلاف فتوی دے کر انہیں حرام قرار دیا تھا۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں مین سٹریم مذہبی جماعتوں کی جانب سے یہ تحریک پہلی مرتبہ اتنی بڑی سطح پر سامنے آئی تھی، جس کو قومی و بین الاقوامی میڈیا نے کوریج  بھی دی۔ 

یونیورسٹی آف سڈنی کے ایک تحقیقی مقالے کے مطابق سنی اتحاد کونسل کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے خلاف ریلیوں کے لیے امریکہ کی جانب سے 36 ہزار ڈالر سے زیادہ گرانٹ بھی دی گئی۔

اس وقت سنی اتحاد کونسل نے ملک بھر میں شدت پسندی کے خلاف مختلف ریلیوں کا انعقاد کیا لیکن بعد میں ممتاز قادری کے ہاتھوں اس وقت کے گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل کے بعد سنی اتحاد کونسل ممتاز قادری کے حمایت میں باہر نکل آئی۔

بعد ازاں امریکہ پر اس کونسل کو گرانٹ دینے پر تنقید بھی کی گئی لیکن امریکی سفارت خانے کے ایک اہلکار نے اس وقت انگریزی روزنامہ ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا تھا کہ امریکہ انتہا پسندی کو فروغ دینے والی کسی تنظیم کو سپورٹ نہیں کرے گا۔

سنی اتحاد کونسل کے اس وقت کے سربراہ صاحبزادہ فضل کریم پر 2009 کے بعد کونسل کو سیاسی رنگ دینے کے باعث تنقید کی گئی اور 2013 کے انتخابات سے قبل پاکستان مسلم لیگ ق سے اتحاد بھی کونسل میں اختلافات کا باعث بنا۔

پاکستان میں 2018 کے انتخابات سے پہلے سنی اتحاد کونسل نے دیگر سنی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والی تنظیموں سے اتحاد کر کے نظام مصطفیٰ گرینڈ الائنس کے نام سے اتحاد کا اعلان کر کے انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست