آٹھ فروری کے عام انتخابات کے نتیجے میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حمایت یافتہ جیتنے والے آزاد امیدواروں کی تعداد خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے کے لیے پوری ہے اور صوبے میں پارٹی کی جانب سے وزیراعلیٰ کو بھی نامزد کردیا گیا ہے۔
اگرچہ پی ٹی آئی نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ مرکز میں بھی حکومت بنائے گی لیکن اراکین کی تعداد کو دیکھ کر بظاہر ایسا ممکن نہیں ہے جبکہ دوسری جانب مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی نے وفاق اور بلوچستان میں مخلوط حکومت بنانے پر اتفاق کرلیا ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق وفاق میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی حکومت بننے کے بعد پی ٹی آئی کو خیبر پختونخوا میں حکومت چلانے کے لیے 2013 جیسے مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔
پاکستان کے دیگر صوبوں کی طرح خیبر پختونخوا کے سالانہ بجٹ کا آدھے سے زیادہ انحصار وفاق سے مختلف مد میں ملنے والے فنڈز پر ہوتا ہے۔
خیبر پختونخوا کے مالی سال 23-2022 کے بجٹ کا اندازہ لگایا جائے تو مجموعی طور پر ایک کھرب 13 ارب روپے میں سے 800 ارب سے زائد صوبائی ٹیکسز کی مد میں، نیشنل فنانس کمیشن کی مد میں، بجلی کے خالص منافع اور گیس رائلٹی کی مد میں وفاقی حکومت سے ملنے کی توقع تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ماضی میں خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت کو ہمیشہ وفاق سے یہی شکایت رہی ہے کہ وفاقی حکومت پر واجب الادا رقم صوبے کو نہیں ملتی۔
محمود جان بابر پشاور میں مقیم سینیئر صحافی و تجزیہ کار ہیں، جو سمجھتے ہیں کہ وفاق میں پی ٹی آئی کے سخت سیاسی مخالفین کی حکومت آنے کے بعد خیبرپختونخوا کے معاشی حالات خراب ہو سکتے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا: ’ایک تو پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے مابین اختلاف کی وجہ سے درجہ حرارت بہت زیادہ ہوگیا ہے اور وفاقی حکومت نہیں چاہے گی کہ وہ پی ٹی آئی کی حکومت کو کامیاب ہونے دے۔‘
بقول محمود جان بابر: ’ابھی بھی جب محمود خان وزیراعلیٰ تھے تو وہ کونسل آف انٹرسٹ کی میٹنگ میں نہیں جاتے تھے جبکہ اس سے پہلے پرویز خٹک کی حکومت کے دوران بھی صوبے کا وفاق کے ساتھ مسئلہ تھا۔‘
انہوں نے بتایا کہ صوبے کی موجودہ ابتر معاشی صورت حال کسی بھی تجربے کی متحمل نہیں ہو سکتی کیونکہ ایک طرف اربوں ڈالر کے قرضے ہیں جو صوبے کو دینے ہیں جبکہ دوسری جانب حکومت کے ساتھ ملازمین کو تنخواہیں دینے کے پیسے بھی نہیں ہے۔
محمود جان کے مطابق صوبے اور وفاقی حکومت کے مابین مشکلات ضرور ہوں گی کیونکہ صوبے کے پاس اپنا کوئی سرمایہ نہیں ہوتا اور صوبوں کا زیادہ تر انحصار وفاقی حکومت پر ہی ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا: ’مجھے تو پی ٹی آئی کی جانب سے فلیگ شپ پروگرام صحت کارڈ بھی چلانا مشکل لگتا ہے کیونکہ اس پروگرام کے لیے بھی اب سالانہ مہنگائی کی وجہ سے تقریباً 40 ارب روپے درکار ہوں گے۔‘
سکیورٹی چیلنجز اور صوبائی حکومت
لحاظ علی پشاور میں مقیم صحافی اور سیاسی تجزیہ کار ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایک طرف تو وفاق اور خیبر پختونخوا میں قائم حکومتوں کے مابین فنڈز کے معاملات پر مسائل ہوں گے تو دوسری جانب خیبر پختونخوا میں سکیورٹی کا مسئلہ بھی پی ٹی آئی کے لیے بڑا چیلنج ہوگا۔
انہوں نے بتایا کہ شدت پسندوں کی جانب سے اب پولیس کے خلاف جدید اسلحہ استعمال کیا جاتا ہے جبکہ صوبائی پولیس کو جدید اسلحے سمیت فنڈز کی بھی ضروت ہوگی۔
بقول لحاظ علی: ’وفاقی حکومت کی جانب سے اگر پی ٹی آئی کو سپورٹ فراہم نہیں کی جاتی تو صوبے میں پی ٹی آئی کے لیے شدت پسندی کے خلاف جنگ ایک بہت بڑا چیلنج ہوگا۔‘
اسی طرح لحاظ سمجھتے ہیں کہ ’خیبر پختونخوا ملک بھر میں پی ٹی آئی کے لیے ایک مرکز ہوگا اور مرکزی حکومت کے خلاف کسی بھی محاذا آرائی میں صوبے کو استعمال کیا جائے گا اور یہ ہم ماضی میں بھی دیکھ چکے ہیں۔‘
اس تمام صورت حال کے حوالے سے پی ٹی آئی کے پشاور کے جنرل سیکرٹری اور سابق صوبائی وزیر کامران خان بنگش نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پی ٹی آئی نے 2013 اور 2018 کے دورِ حکومت میں وفاق میں خیبرپختونخوا کے حقوق کے لیے مضبوط آواز اٹھائی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ اس وقت بھی صوبے کے حقوق اور بالخصوص سکیورٹی اور معاشی مسائل پر بات کی گئی تھی اور اب بھی کریں گے۔
کامران بنگش نے مزید کہا: ’این ایف سی ایوارڈ اور صوبے کے دیگر حقوق کے لیے مضبوط آواز اٹھائیں گے اور صوبے کے حقوق پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔