پاکستان میں آٹھ فرروی 2024 کے غیر فیصلہ کن انتخابات کے بعد وفاقی سطح پر حکومت سازی کے عمل کے لیے سیاسی دھڑوں میں اتفاق رائے میں تاخیر سے سیاسی ڈیڈ لاک جیسی صورت حال کا تاثر مل رہا ہے۔
قومی اسمبلی کی سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اس کے حمایت یافتہ کامیاب آزاد امیدواروں کو سنی اتحاد کونسل میں شامل کر کے محفوظ بنا لیا ہے۔
تاہم دو دوسری بڑی جماعتیں ۔ پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی ۔ مذاکرات کے کئی راؤنڈز کے باوجود ابھی تک وفاقی حکومت کے فارمولے کو حتمی شکل دینے میں ناکام رہی ہیں۔
روایتی اور سوشل میڈیا کے علاوہ نجی محفلوں میں سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ سیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے نہ ہونے کی صورت میں مستقبل کی وفاقی حکومت کی تشکیل کیسے ممکن ہو پائے گی؟
تاہم ماہرین کے خیال میں 1973 میں بننے والا آئین پاکستان اتنا مفصل اور جامع ہے کہ قومی اسمبلی کی تشکیل کے بعد حکومت سازی میں کسی قسم کے ڈیڈ لاک کا امکان ممکن نہیں ہو گا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے وکیل اور آئینی ماہر عرفان قادر نے قومی اسمبلی میں قائد ایوان (یا وزیر اعظم) کے انتخاب سے متعلق کسی قسم کے تعطل، ڈیڈ لاک یا افراتفری کے امکان کو جھٹلاتے ہوئے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 91 اس سلسلے میں ہر تفصیل کا جواب دیتا ہے، جس کی وجہ سے کوئی ابہام باقی رہ نہیں جاتا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انکا کہنا تھا: ’آرٹیکل 91 میں تقریباً ہر صورت حال کا جواب اور اس سے ڈیل کرنے کا طریقہ کار موجود ہے، اس لیے میرا نہیں خیال کہ کوئی برا کام ہو سکتا ہے۔‘
نگران وفاقی وزیر اطلاعات و پارلیمانی امور مرتضیٰ سولنگی نے بھی منگل کو اسلام آباد میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ سیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے نہ ہونے کی صورت میں بھی آئین میں ہر صورت حال کا حل موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کا آئین اتنا مفصل اور جامع ہے کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے پیدا نہ ہونے کی صورت میں بھی آئین میں دوسرے راستے موجود ہیں۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر عارف چوہدری کے خیال میں پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان حکومت سازی سے متعلق معاہدے کا ہونا ناگزیر ہے، تاہم اس میں وقت لگ سکتا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا: ’ان دونوں جماعتوں کے پاس عددی برتری موجود ہے اب بات چیت حکومت میں حصہ تقسیم کرنے پر ہو رہی ہے اور اسی میں وقت لگ رہا ہے۔‘
نئی اسمبلی کا پہلا اجلاس
ئین پاکستان کے تیسرے حصے (پارٹ III) کا تعلق وفاق پاکستان سے ہے، جب کہ اس حصے میں پایا جانے والا تیسرا باب وفاقی حکومت کی تشکیل اور ترکیب سے متعلق ہے۔
آئین کے تیسرے باب میں شامل آرٹیکل 91 وزیر اعظم (یا قومی اسمبلی میں قائد ایوان) کے انتخاب کے طریقہ کار کو بیان کرتا ہے۔آرٹیکل 91(2) میں بتایا گیا ہے کہ عام انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس پولنگ ڈے کے بعد 21 ویں روز طلب کیا جائے گا، جب کہ صدر مملکت اس سے قبل بھی پارلیمان کے ایوان زیریں کی بیٹھک بلوا سکتے ہیں۔
نئی قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں سب سے پہلا کام نو منتخب اراکین کا حلف ہو گا، جس کے بعد تمام ایم این ایز اسمبلی کے رجسٹر پر ایک ایک کر کے دستخط ثبت کریں گے۔
وزیر اعظم کا انتخاب
آرٹیکل 91(3) میں ذکر ہے کہ نئی قومی اسمبلی کوئی دوسرا کام کیے بغیر پہلے اپنا سپیکر اور پھر ڈپٹی سپیکر کے انتخابات عمل میں لائے گی اور ان دو کاموں کے فوراً بعد ایوان کے کسی مسلمان رکن کو وزیر اعظم (یا قائد ایوان) کے طور منتخب کرنے کے لیے آگے بڑھے گی۔
وزیر اعظم کے انتخاب کے لیے کسی بھی دوسرے الیکشن کی طرح شیڈول جاری کیا جاتا ہے، جس کے تحت امیدوار کاغذات نامزدگی جمع کرتے ہیں، جن کی جانچ پڑتال، اعتراضات، ان کے جوابات اور امیدواروں کی ابتدائی اور حتمی فہرستوں کا اجرا شامل ہوتے ہیں۔
پاکستان کے وزیر اعظم کے انتخاب کے لیے الیکٹورل کالج ملکی پارلیمان کے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی کے تمام اراکین پر مشتمل ہوتا ہے اور آرٹیکل 91(4) کے مطابق کسی امیدوار کو کامیابی حاصل کرنے کے لیے ایوان کی مجموعی رکنیت کی کم از کم سادہ اکثریت (51 فیصد اراکین کے ووٹ) حاصل کرنا ہوتے ہیں۔
اس وقت پاکستان کی قومی اسمبلی مجموعی طور پر 336 اراکین (ایم این ایز) پر مشتمل ہے اور وزیر اعظم منتخب ہونے کے لیے کسی امیدوار کے لیے 169 اراکین کی حمایت ضروری ہے۔
قومی اسمبلی میں وزیر اعظم کا انتخاب خفیہ بیلٹ کے ذریعے نہیں ہوتا بلکہ اس مقصد کے لیے شو آف ہینڈ کا طریقہ اپنایا جاتا ہے اور کسی ایک امیدوار کو 51 فیصد اراکین کی حمایت حاصل کرنے کی صورت میں منتخب قرار دیا جاتا ہے۔
وزیر اعظم کے انتخاب کے طریقہ کار کی وضاحت کرتے ہوئے آرٹیکل 91(4) بیان کرتا ہے کہ پہلی رائے شماری کے دوران متحارب امیدواروں میں سے کسی ایک کا بھی 51 فیصد ووٹ حاصل نہ کرنے کی صورت میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے دو امیدواروں کے درمیان دوبارہ مقابلہ کروایا جائے گا۔
آئین کے مطابق دوسری رائے شماری میں کامیابی کے لیے دو میں سے کسی ایک امیدوار کو کامیابی کے لیے اس وقت ایوان میں موجود اور ووٹ ڈالنے والے اراکین کے ووٹوں کی اکثریت حاصل کرنا ہو گی۔
آئین مزید وضاحت کرتا ہے کہ دوسری رائے شماری میں ٹائی (دونوں امیدواروں کے برابر ووٹ) کی صورت میں انہی دونوں امیدواروں کے درمیان اس وقت تک مزید رائے شماری کی جائے گی جب تک کہ ان میں سے کوئی ایک ایوان میں موجود اور ووٹ ڈالنے والے اراکین کے ووٹوں کی اکثریت حاصل نہ کر لے۔
آئین کا آرٹیکل 91(5) بتاتا ہے کہ شق (4) کے تحت وزیر اعظم کا انتخاب مکمل ہونے کے بعد منتخب رکن کو صدر وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے لیے بلائیں گے اور وہ ذمہ داری سنبھالنے سے قبل آئین میں دیے گئے تیسرے شیڈول میں درج فارم میں صدر سے حلف لیں گے۔
اگر کوئی امیدوار نہ ہوا تو؟
بعض حلقوں میں اس امکان پر بھی بحث و مباحثے ہو رہے ہیں کہ کسی دو جماعتوں میں اتفاق رائے نہ ہونے کی صورت میں کیا وزیر اعظم کا کوئی امیدوار میدان میں نہیں آ پائے گا؟ اور اگر ایسا ہوا تو کیا صورت حال جنم لے گی؟
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر عارف چوہدری کا کہنا تھا کہ ایسی صورت حال کا کوئی امکان موجود نہیں ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ دو مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان اتفاق نہ ہونے اور ان کا مشترکہ امیدوار سامنے نہ آنے کی صورت میں پاکستان تحریک انصاف اپنے امیدوار کو میدان میں اتار دے گی اور وہ وزیر اعظم کا انتخاب جیت جائے گا۔
’اس لیے ایسا ممکن نہیں کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی وزیر اعظم جیسے اہم عہدے کو بغیر انتخاب لڑے کسی دوسرے مخالف کے حوالے کر دیں۔ ایسا کوئی امکان وقوع پذیر نہیں ہو سکتا۔‘
انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اسٹیبلیشمنٹ بھی چاہے گی کہ وزیر اعظم کا انتخاب احسن طریقے سے ہو اور نئی وفاقی حکومت کچھ عرصے کے لیے چلئ بھی۔
’اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کو معاشی مشکلات کے باعث بیرونی دنیا اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے مالی امداد کی ضرورت ہے جو ایک جمہوری طریقے سے منتخب اور مستحکم حکومت کے بغیر ممکن نہیں ہو پائے گا۔‘
بحران کب ہو سکتا ہے؟
عرفان قادر کے خیال میں وفاقی حکومت کی تشکیل کے دوران کسی بحران کے وجود میں آنبے کا کوئی امکان موجود نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا: ’البتہ وزیر اعظم کے چناؤ اور وفاقی کابینہ کی تشکیل کے بعد کیا ہو گا اس متعلق ابھی سے کچھ کہنا نہ صرف قبل از وقت بلکہ مشکل بھی ہے۔‘
اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے وکیل کا کہنا تھا کہ وقت کے گزرے نے ساتھ الیکشن ٹریبونلز میں انتخابی نتائج سے متعلق مقدمات کے فیصلے آنا شروع ہوں گے، جو صورت حال کو بالکل تبدیل کرنے کا موجب بن سکتے ہیں۔
’اگر وزیر اعظم کی حمایت کرنے والے اراکین میں سے چند یا زیادہ کو ٹریبونلز ہارا ہوا قرار دے دیتے ہیں تو چیف ایگزیکٹیو ایوان مٰن اکثریت سے محروم ہو جاتے ہیں، جس سے ان کے لیے واقعتاً مسئلہ بنے گا۔‘