انڈین ریاستوں پنجاب، ہریانہ اور اتر پردیش کے کسانوں نے رواں ماہ ’دہلی چلو‘ کے نعرے کے ساتھ دارالحکومت نئی دہلی کی طرف مارچ شروع کیا اور اب وہ دہلی کے باہر شمبھو۔ہریانہ کی سرحد پر دھرنا دیے بیٹھے ہیں، جسے ’کسان احتجاج 2.0‘ بھی کہا جا رہا ہے۔
سال 2020 میں بھی کسانوں نے احتجاج کرتے ہوئے تین قوانین کی منسوخی کا مطالبہ کیا تھا، جن میں کسانوں کا پیداوار اور تجارت (فروغ اور سہولت) کا قانون، کسانوں کا (اختیارات اور حفاظت) یقینی معاہدہ قیمت اور فارم سروسز قانون اور ضروری اشیا (ترتیب) کا قانون شامل تھا۔
2021 میں حکومت نے یہ متنازع قوانین ختم کردیے، جس سے کسانوں کا احتجاج ختم ہوگیا تھا۔
اب فروری 2024 میں کسان دوبارہ سڑکوں پر واپس آگئے ہیں تاکہ حکومت کو اس وقت کیے گئے وعدے یاد دلوائیں۔
ریاست پنجاب سے تعلق رکھنے والے نریندر سنگھ بھی احتجاج کرنے والے ان کسانوں میں سے ایک ہیں جو حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے کھیتوں سے متعلق نئے قوانین کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور انہوں نے دہلی کے باہر شمبھو۔ہریانہ کی سرحد پر ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔
نریندر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’تین سال پہلے 2020 میں ہم نے کھیتوں سے متعلق تین قوانین کے خلاف ایک احتجاج کیا اور 15 مہینے کے بعد حکومت نے قوانین کو منسوخ کرنے کا متفقہ فیصلہ کیا، لیکن آج ہم یہاں دوبارہ اس انسانی جدوجہد کے لیے آئے ہیں جو بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کے خلاف ہے، جو دعویٰ کرتی ہے کہ یہ قوانین کسانوں کے لیے مفید ہیں۔ 15 مہینے کے احتجاج اور 750 سے زیادہ کسانوں کی اموات کے باوجود یہ (حکومت) دوبارہ یہ قوانین لاگو کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔‘
احتجاج کرنے والے کسانوں کو خدشہ ہے کہ یہ قانون حکومت سے ملنے والی کم سے کم امدادی قیمتوں کو ختم کر دے گا اور وہ پرائیویٹ کارپوریشنوں کے رحم و کرم پر رہ جائیں گے۔
حالیہ احتجاج کے دوران جب مظاہرین نے دہلی کی طرف مارچ کرنے کی کوشش کی تو انہیں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔ انہیں واٹر سپرے کینن، آنسو گیس کے گولوں اور چھروں کا سامنا کرنا پڑا، جس کے نتیجے میں وہ زخمی ہوئے اور کسانوں کا دعویٰ ہے کہ پولیس کے ہاتھوں شوبھکرن سنگھ نامی 21 سالہ نوجوان کی موت بھی ہوئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نریندر سنگھ نے مزید کہا: ’حکومت کا دعویٰ ہے کہ جموں و کشمیر ہمارا سر ہے اور پنجاب ہمارا سینہ ہے اور آج ملک کے سینے پر گولیاں برسا رہی ہے۔ یہ لڑائی کسی دوسرے ملک سے نہیں ہے، یہاں ہم بغیر کسی ہتھیار کے کھڑے ہیں، ہم صرف لاٹھیاں اٹھائے ہوئے ہیں۔ جب انہیں الیکشن کے دوران ووٹ کی ضرورت پڑتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم آپ کے پیارے نیتا (لیڈر) ہیں اور جب وہ الیکشن سے فارغ ہوتے ہیں تو کہتے ہیں، ’میرے انگنا میں تمہارا کیا کام ہے؟‘
شمبھو میں پنجاب-ہریانہ کی سرحد پر سینکڑوں ٹریکٹروں اور ٹرالیوں نے کم از کم آٹھ کلومیٹر تک قبضہ کر رکھا ہے۔ کسان اس معاملے کے لیے حکمران جماعت بی جے پی کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں اور طویل عرصے تک احتجاج کے لیے تیار ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ چھ ماہ کا کھانے پینے کا سامان ان کے پاس موجود ہے۔
نریندر نے بتایا: ’آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ہمارے پاس کتنے ٹریکٹر ہیں، یہ سات آٹھ کلومیٹر پر پھیلے ہوئے ہیں اور آج یہ ٹریکٹر ہمارے ٹینکوں کی طرح ہیں۔ ہمارے پاس چھ ماہ کے لیے کھانے پینے کا سامان موجود ہے۔ اس حالت کی ذمہ دار حکومت ہے۔ ہم یہاں دوبارہ سڑکوں پر کیوں ہیں یہ سب حکومت کی وجہ سے ہے۔‘
انہوں نے وضاحت کی کہ کھیتوں سے متعلق قوانین کسانوں کے گلے کاٹنے کے لیے لگائے جا رہے ہیں اور یہ قوانین اس بات کی ضمانت نہیں دیتے کہ آ یا وہ اپنی فصلوں کی کم از کم امدادی قیمت وصول کر یں گے۔
نریندر نے سوال کیا: ’اگر انڈیا خود پر انحصار کر رہا ہے تو وہ باہر سے سبزیاں کیوں درآمد کر رہا ہے جبکہ ہم انہیں یہاں اگا سکتے ہیں، اگر ہم خود مختار ہیں تو چین سے چیزیں کیوں درآمد کر رہے ہیں۔ حکومت کسانوں کے پیچھے کیوں پڑی ہے، ہمارا گلا گھونٹنے کی کوشش کیوں کر رہی ہے؟ جب ایک ملک کے بادشاہ نے کہا کہ وہ قوانین کو منسوخ کرنے جا رہے ہیں اور اب وہ دوسرے طریقوں سے وہی قوانین لے کر آئے ہیں۔‘
2020 میں 15 ماہ تک احتجاج کرنے کے بعد بھی حکومت پھر سے کھیتوں سے متعلق قوانین لے کر آئی جس سے کسانوں کو دوبارہ احتجاج کے لیے سڑک پر آنا پڑا۔
نریندر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’چاہے کوئی کسی بھی ذات، مذہب کا ہو، ہم دہلی میں 15 ماہ تک قوانین کو منسوخ کرنے کی حمایت میں کھڑے رہے اور حکومت کو متنازع قوانین کو منسوخ کرنے پر مجبور کیا، لیکن تین سال بعد حکومت پھر سے وہی قوانین مختلف ناموں کے ساتھ لے کر آئی ہے۔‘
انڈین حکومت 21 فروری 2024 تک کسان رہنماؤں سے مذاکرات کے چار دور کر چکی ہے جس کے بعد انڈین وزیر زراعت ارجن منڈا نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ مسائل کے حل کے لیے پانچویں مرتبہ بھی تیار ہیں۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔