اسرائیلی فورسز کے غزہ پر جمعے کی رات بھر جاری رہنے والے حملوں میں 100 سے زائد افراد جان سے چلے گئے۔
یہ حملے اس وقت ہوئے جب اسرائیلی خفیہ ادارے کے سربراہ سیز فائر اور حماس کے پاس موجود قیدیوں کی واپسی کے لیے پیش رفت ’آگے بڑھانے‘ کی غرض سے مذاکرات کے لیے پیرس میں موجود تھے۔
پیرس میں مذاکرات ایسے وقت پر ہو رہے ہیں جب اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو نے غزہ جارحیت بعد کے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔
اس منصوبے پر اسرائیل کے اہم اتحادی امریکہ نے بھی شدید تنقید کی اور جمعے کو فلسطینی اتھارٹی اور حماس نے بھی اسے مسترد کر دیا تھا۔
علاقے میں شہریوں کا خوف بڑھ رہا ہے اور اقوام متحدہ نے قحط کے بڑھتے ہوئے خطرے کے بارے میں خبردار کیا ہے۔ فلسطینیوں کے لیے اقوام متحدہ کے مرکزی امدادی ادارے یو این ڈبلیو آر اے نے ہفتے کی صبح کہا کہ غزہ کے باشندے ’انتہائی خطرے میں ہیں جب کہ دنیا بس دیکھ رہی ہے۔‘
اے ایف پی کی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ غزہ کے پریشان حال شہری جمعے کو تباہ شدہ شمالی علاقے میں خوراک کے لیے قطاروں میں کھڑے اور احتجاج کر رہے ہیں۔
جبالیہ کے رہائشی احمد عاطف صافی نے کہا، ’دیکھیں ہم چاول کے لیے ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں۔ ہم کہاں جائیں؟‘
جبالیہ کے رہائشی اوم واجدی سلہا نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ’ہمارے پاس پانی نہیں، آٹا نہیں اور ہم بھوک کی وجہ سے بہت تھکے ہوئے ہیں۔ آگ اور دھوئیں کی وجہ سے ہماری کمر اور آنکھوں میں درد ہوتا ہے۔
’ہم بھوک اور خوراک کی کمی کی وجہ سے اپنے پیروں پر کھڑے نہیں ہو سکتے۔‘
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے او سی ایچ اے نے جمعے کی رات ایکس پر ایک بیان میں کہا: ’صحت کی سہولیات خوراک اور پانی کی مناسب فراہمی کے بغیر غزہ میں قحط کا خطرہ بڑھنے کا خدشہ ہے۔‘
غزہ کی وزارت صحت نے جمعے کو جو تازہ ترین اعداد و شمار جاری کیے ان کے مطابق اسرائیلی جارحیت میں سات اکتوبر کے بعد سے کم از کم 29 ہزار 514 افراد جان سے گئے جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔
وزارت صحت نے بتایا کہ جمعے کو غزہ میں ہوئے ایک اسرائیلی فضائی حملے میں معروف فلسطینی مزاح نگار محمود زیطار کا گھر تباہ ہوگیا، اس میں کم از کم 23 افراد جان سے گئے اور درجنوں زخمی ہوئے۔
وزارت نے ہفتے کی صبح اعلان کیا کہ رات بھر ہونے والے حملوں میں کم از کم 103 افراد جان سے گئے جبکہ کئی افراد کے بارے میں خیال ہے کہ وہ ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔
نتن یاہو نے جمعرات کی شب جنگی کابینہ کے سامنے جارحیت کے بعد غزہ کے لیے ایک منصوبہ پیش کیا جس میں بتایا گیا ہے کہ فلسطینی حکام حماس سے تعلق کے بغیر شہری امور چلائیں گے۔
اس منصوبے میں کہا گیا کہ جارحیت کے بعد بھی اسرائیلی فوج کو پورے غزہ میں کام کرنے کی ’غیر معینہ مدت تک آزادی‘ ہوگی تاکہ دہشت گردی کی سرگرمیوں کو دوبارہ شروع ہونے سے روکا جا سکے۔
اس میں یہ بھی کہا گیا کہ اسرائیل غزہ کی سرحد کے ساتھ ساتھ ایک سکیورٹی بفر زون بنائے گا جس پر پہلے سے کام جاری ہے۔
اس منصوبے پر امریکہ نے بھی تنقید کی اور قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے جمعے کو کہا کہ واشنگٹن ’اپنے اسرائیلی ہم منصبوں کے ساتھ مسلسل صاف بات کرتا رہا ہے کہ جنگ کے بعد غزہ میں کس چیز کی ضرورت ہے۔‘
انہوں نے کہا: ’فلسطینی عوام کے پاس ایک آواز اور ایک ووٹ ہونا چاہیے، فلسطینی اتھارٹی کی بحالی کے ذریعے۔ امریکہ بھی غزہ کے علاقے میں کمی پر یقین نہیں رکھتا۔‘
دورہ ارجنٹائن کے دوران اس منصوبے کے بارے میں پوچھے جانے پر امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا کہ وہ تمام تفصیلات دیکھنے تک ’فیصلہ محفوظ رکھیں گے‘ لیکن واشنگٹن جارحیت کے بعد غزہ پر دوبارہ قبضے کے خلاف ہے۔
حماس کے سینیئر عہدے دار اسامہ ہمدان نے نتن یاہو کے منصوبے کو ناقابل عمل قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔
دریں اثنا اسرائیلی خفیہ ادارے کے سربراہ ڈیوڈ برنیا کی سربراہی میں اسرائیلی وفد باقی قیدیوں کی واپسی کے معاہدے کے لیے نئی پیش رفت کے لیے ہفتے کو پیرس میں ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسرائیلی میڈیا کے مطابق برنیا کے ساتھ اسرائیلی ایجنسی شین بیٹ سکیورٹی ایجنسی ڈائریکٹر رونن بار بھی ہیں۔
امریکہ، مصر اور قطر کی ماضی کے مذاکرات میں گہری دلچسپی رہی ہے جن کا مقصد سیزفائر اور قیدیوں کے تبادلے کو یقینی بنانا ہے۔
چار ماہ سے زیادہ عرصے کی جارحیت بعد نتن یاہو کی حکومت پر دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ سیز فائر اور قیدیوں کی رہائی کے لیے مذاکرات کرے۔
قیدیوں کے اہل خانہ کی نمائندگی کرنے والے ایک گروپ نے ہفتے کی رات پیرس میں ہونے والے مذاکرات کے موقع پر ایک ’بڑی ریلی‘ نکالنے کا منصوبہ بنایا ہے تاکہ فوری کارروائی کا مطالبہ کیا جا سکے۔
وائٹ ہاؤس کے ایلچی بریٹ میک گرک نے قاہرہ میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ سے ملاقات کے بعد رواں ہفتے تل ابیب میں اسرائیلی وزیر دفاع یواوگیلنٹ کے ساتھ بات چیت کی۔
حماس کے ذرائع کا کہنا ہے کہ نئے منصوبے میں چھ ہفتوں کے لیے سیزفائر اور حماس کی قید سے 35 سے 40 قیدیوں کے بدلے 200 سے 300 فلسطینی قیدیوں کی رہائی کی تجویز دی گئی ہے۔
برنیا اور سی آئی اے کے ان کے امریکی ہم منصب نے نومبر میں ایک ہفتے کے سیز فائر میں مدد کی تھی جس کے نتیجے میں اسرائیلی جیلوں میں قید 240 فلسطینی قیدیوں کے بدلے 80 اسرائیلی قیدیوں کو رہا کیا گیا تھا۔
امریکی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے اس سے قبل صحافیوں کو بتایا تھا کہ اب تک بات چیت ’اچھی جا رہی ہے۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔